ہم بھی مذمت کرتے ہیں ۔ حمل بلوچ

754

ہم بھی مذمت کرتے ہیں

تحریر: حمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ لیبریشن آرمی کے زیر اہتمام فدائیان وطن نے بلوچستان کے علاقے پنجگور و نوشکی میں دو دن سے جاری آپریشن کو اپنے بہادری اور شجاعت سے کامیابی کے دہانے پر پہنچا دیا، عوام میں خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ خوف کا ماحول بھی سرایت کر گئی ہے کہ کہی سامراجی قوتوں نے شکست اور لاچارگی میں مظلوم عوام پر دھاوا بول دیا تو کیا ہوگا۔

ہونا بھی یہی تھا نوشکی آپریشن کامیابی سے پاکستانی فوج کے خلاف جیت جانے کے بعد جب فدائیان وطن نے پنجگور کیمپ پر ایک ہی وقت میں حملہ کرکے دشمنانِ وطن کو پسپائی پر مجبور کیا تو چارہ گر بے چارہ سامراج مظلوم، بے یار مددگار اور نہتے عوام پر ہلہ بول دیا اور سرعام شہریوں کو نشانہ بنا کر اغواء اور ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا۔

یہاں جنگ اپنے آب و تاب سے جاری ہے کہ میں نے جنگی حال معلوم کرنے کیلئے سرکاری اخباروں اور میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے اخبار کھول لی تو خون جما دینے والے جھوٹ اور مکاریوں سے بھری اخبار نے مجھے بھی مذمت کرنے پہ مجبور کردیا۔

اعلیٰ سے لیکر ادنی تک تمام کاسہ لیسوں نے بلوچ لبریشن آرمی کے اس حملے کی مذمت کی تھی اور سو فوجی تعداد کو گھٹا کر سات کے مارے جانے کی ایک بےشرمانہ جھوٹ گھاڑ دی تھی۔

وہ تو طے تھا کہ اوپر سے سات فوجی اہلکار کے قتل ہونے کی مذمت بھی کر کے اپنے تلوے چاٹ ہونے کی ثبوت پیش کرنا تھا۔
یہ کہاں کی جنگی اصول و قوانین ٹھہریں؟
وہ سو مرے تو ہوئے سات
ہم دو شہید تو شکست ہمیں۔
ایک بار تو خیال آیا کہ یہ کہاں کی انصاف ہے کہ جنگ میں لائے گئے اپنے ہی افواج کی موت کو چھپا کر انہیں بہادری سے مرنے کے اعزاز دینا بھی گوارہ نہیں کرتے؟
پھر سوچا کہا کہ بہادر ٹھہریں یہ بوٹ والے کاسہ لیس!
سچ کہا کسی نے کہ تنخواہ کیلئے لڑنے والے سپاہی اور وطن کی محبت میں جنگ کرنے والے فدائیان قطعاً برابر نہیں ہو سکتے۔
جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور پھر اوپر سے مذمتی بیانات سے دل بہلایا گیا۔
اخبارات تو کچھا کھچ سرکاری کاسہ لیسوں کے مذمتی بیانات سے بھرے ہوئے ہے۔
خیال آیا کہ چلیں ہم بھی معصوم اور نہتے عوام پر ظلم و ستم حملہ اور اغواء کاریوں کا مذمت کریں۔
ہم مذمت کیوں نہ کریں ان نو فدائیان کے مارے جانے کی جنہوں نے اپنے حق کیلئے اپنے جانوں پر کھیل کر جان دے دی۔
ہم مذمت کیوں نہ کریں ان جھوٹ اور غلط بیانیوں کی جو سو کی تعداد کو گھٹا کر سات لکھا، وہ پسپائی و شکست کو اپنا جیت گردانے اور اپنے ہی لوگوں کو اعزاز دینے کے بجائے بے نشان جگہوں پر زندہ درگور کریں۔
اس وسیع و عریض سرزمین بلوچستان میں سامراج کے ساتھ توتک جیسے علاقوں کی کمی کہاں ہے جہاں وہ انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرکے زمین میں گھاڑ دیں۔
خداوند دشمن کا مقابلہ بھی ایسے گری ہوئی قوم (پاکستانی) سے نہ کرائیں جو سات کے مقابلے کے لئے سارا کا سارا نظام (نیٹ ورک، انٹرنیٹ وغیرہ)مفلوج کرکے دکھ دیتی ہے۔
یقین نہیں آتا کہ بلوچ کا دشمن اتنا ڈرپوک ہے۔
چلیں ہم بھی مذمت کرتے ہیں؛
ہماری مذمت کی بھی تو کوئی تُک بنتی ہے۔
چلیں مذمت کرتے ہیں سامراج کی ان ڈرتی ہوئی جھوٹ سے بھری اخباروں کی جنہوں نے سچ لکھنے کی صلاحیت کھو دی ہے۔
وہ جھوٹ پر زندہ قوم ہے تو کیا ہوا۔
ہم (بلوچ) بھی تو سچ پر مر مٹنے والی وہ قوم ہے جو جان دیتے ہے مگر ایمان نہیں۔
بلوچ جانثاروں؛ اللہ تمہارا نگہبان!۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں