تحریک کو داؤ پر لگا کر کس کوجواز فراہم کیا جارہا ہے ؟ـــ برزکوہی بلوچ

601

ہفتہ وار کالم ’’ نوشتہ دیوار ‘‘ برزکوہی بلوچ کے قلم سے
تحریک کو داؤ پر لگا کر کس کوجواز فراہم کیا جارہا ہے ؟

اس بات سے ہر کوئی باخوبی واقف ہے کہ بی ایل اے کے سابقہ اور کہیں برسوں سے گمنام ترجمان آزاد بلوچ کے نام سے گذشتہ چند ماہ کے دوران دو مختلف ایسے اخباری بیان سامنے آگئے کہ بہت سارے سنجیدہ حلقوں نے اسے انتہائی بچگانہ ،غیر سنجیدہ، جذباتی، غیرسیاسی اور اناپرستی کی زہر سے بھرا حرکت  قرار دیا ، آزاد کی غیر سنجیدہ بیان نے تمام طبقوں کو حیرت میں ڈال دیا کہ اگر یہ بیانات واقعی بی ایل اے کے ہیں پھر ہر ایک ذی شعور بندہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بی ایل اے خود صرف اپنے آپ کو نہیں پورا بلوچ قومی تحریک کو کس طرف اور کہاں لے جارہا ہے؟

مطلب بی ایل اے کے اہم کمانڈر اسلم بلوچ کی انڈیا جانے کی راز افشان کرنا (قطع نظر اسلم انڈیا گیا ہے یا نہیں)دوسرا انڈیا سے کہنا اگر سپورٹ کرنا ہے تو کھلم کھلا سپورٹ کرو ،کیا پھر انڈیا پہلے اندرونی طور پر سپورٹ کرچکا ہے؟اب کھل کر کمک کا مطالبہ کرنا؟پاکستانی ریاست سے لیکر پورے دنیا کو پتہ ہے کہ اسلم بلوچ بولان کے سرگرم مزاحمتی محاذ پر موجود ایک بڑے فوجی آپریشن میں شدید زخمی بھی ہوا تھا اور پاکستان اس وقت اپنی طرف سے انھیں شہید کرنے کا دعوی بھی کرچکا تھا، وہاں سے بچ کر کیسے اور کس طرح انڈیا پہنچ گیا؟اگر حقیقت بھی ہے تو وہ خفیہ طریقہ کار ہوگا یا اوپن طریقہ کار کے ذریعے؟اگر خفیہ ہے پھر اس کو اوپن کرنا کہ کوئی بھی مزاحمت کار باآسانی انڈیا جاسکتا اور آسکتا ہے۔

کیا اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ہمدرد ملک انڈیا کے حوالے سے پاکستان جیسے شاطر ریاست کو ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کی کوشش نہیں ہے؟ظاہر تو یہی ہورہا ہے پھر کس لیے اور کیوں؟ اگر یہ من گھڑت دلیل سامنے آرہا ہے کہ پاکستان اور دنیا کو ویسے پتہ چل جائے گا،پتہ چل جانا سننا اور بات ہے، خود اپنی ہی آواز اپنی ہی ہاتھوں سے تصدیق اور مہر ثبت کرنا کونسا دانشمندانہ کا فیصلہ ہے؟

اگر سب کچھ دشمن کو خاطر میں نہیں رکھتے ہوئے بلوچ قوم کو بتانا ہے پھر وہ تمام حقائق بھی قوم کو بتاجائے کہ اس وقت تک تحریک کو کون کون مالی سپورٹ کررہے ہیں؟پیسے کتنے آرہے ہیں کہاں سے آرہے ہیں؟اسلحہ کہاں سے آرہا ہے؟کون دے رہا ہے؟اور کیوں دے رہا ہے؟

خیر آزاد کے بیان کے بعدپھر بی ایل اے کے مشہور و معروف اور ہر وقت سرگرم ترجمان جیئند بلوچ کا بیان آیا کہ یہ سب جھوٹ ہیں ہمارا ویب سائٹ ہیک ہوچکا ہے،جو اسی وقت ایسا لگتا تھا کہ بدبودار گند پر مٹی ڈالنے کی ایک کوشش تھی تاکہ بدبو دور تک نہیں پھیلے، کافی حد تک ایسا ہوا بھی، کم از کم دشمن سے لیکر تمام بدخواہوں کو کچھ کہنے پروپیگنڈہ کرنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں معاملہ متنازعہ اور مشکوک ہوگیا۔لیکن اس کے باوجود کوشش ہوتا رہا کہ آزاد بلوچ کے نام سے کوئی بھی کارروائی قبول ہوجائے ان دنوں میں تاکہ آذاد بلوچ کی غیر سنجیدہ بیان وزن دار ثابت ہو،چند ایسے ہوائی بیانات بھی سامنے آئے ان کی اصل حقیقت زیر بحث نہیں۔

اس کے بعد ابھی 2 نومبر یعنی پانچ مہینے بعد بیان کم آرٹیکل و اعتراف نامہ زیادہ آزاد بلوچ کے نام سے ایک بیان نظروں سے گزرا خیر اس میں لیلیٰ مجنون کی پوری داستان قلمبند تھی، باقی چیزوں کو کوئی اہمیت نہیں، وہ سب ردی کی ٹوکری کے لائق تھے، لیکن اس میں چند باتیں ایسے تھے جو پورا تحریک کیلئے میری رائے کے مطابق آنے والے دنوں میں انتہائی خطرناک ثابت ہونگے اور پورا بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کو ان چیزوں کی سزا بھگتا پڑے گا، یعنی آزاد بلوچ کہتا ہے استاد اسلم کا تعلق مزہبی شدت پسندوں سے ہے ،یہ سب کو معلوم ہے اسلم بلوچ کا شمار بی ایل اے کے کون سے کمانڈروں میں ہوتا ہے، وضاحت کی ضرورت نہیں۔

اگر اسلم بلوچ کا تعلق بقول ہائی کمان شدت پسندوں سے ہے تو یہ کب اور کس وقت سے ہے، ظاہر ہے ایک دن یعنی 2 نومبر سے نہیں ہے کہ معلوم ہوتے ہی بیان سامنے آیا اگر کافی عرصے سے ہے پھر اسلم کو اس گناہ کی سزا آج کیوں؟اس وقت تک خاموشی و مصلحت پسندی کیوں؟کیا تقریبا 17 سالوں سے پاکستان ریاست پورے سیکولر اور مہذہب دنیا کے سامنے رو رو کر چلا رہا ہے کہ بلوچ مذہبی ہیں اور ان کاتعلق مذہبی شدت پسند دہشت گردوں سے ہے اور یہ کل دنیا کیلئے خطرہ ثابت ہونگے ،بجائے ایک پرُامن ریاست آزاد بلوچستان کے بس آپ مجھے مدد اور کمک کرو، بجائے بلوچوں کے اور ساتھ ساتھ بلوچ نسل کشی پر آواز اٹھانا اور انسانی حقوق کی بات بھی نہیں کرنا۔میں ان کو ختم کردونگا ،شدت پسندوں کے ساتھ پھر خود بخود خطے میں امن قائم ہوگا۔

یہ پاکستانی موقف عالمی سطح پر کب سے چل رہا ہے یہ سب کو معلوم ہے پھر نام نہاد ہائی کمان کی طرف سے پاکستان کی دیرینہ اور خطرناک موقف کی تصدیق کرنا ،تحریک اور پورے بلوچ قوم کو کہاں اور کس طرف لے جانے کی طرف اشارہ ہیں؟دوسری بات اس وقت بلوچستان میں سب سے زیادہ سرگرم مسلح تنظیم بی ایل ایف جو دشمن کے خلاف نبردآزما ہے اور دشمن بھی مکمل فوکس بی ایل ایف اور اس کے ہمدردوں کو کچلنے اور ختم کرنے کی پوری کوشش میں لگا ہے، اس موقع پر بی ایل ایف کو تحریک کی فہرست سے نکال کر ایران جیسے انتہاء پسند ملک کا پروکسی قرار دینا کیا مہذب دنیا، امریکہ یورپی یونین اور یواین کو یہ ثابت کرنے کی ایک کوشش نہیں ہے؟کہ بی ایل ایف اور بی ایل ایف سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں یعنی پورے مکران میں ریاستی قتل عام پر سب خاموش رہیں، کیونکہ یہ تحریک اور قوم کے حصے نہیں بلکہ ایران کے ایجنٹ ہیں کیونکہ ہر ذی شعور انسان بخوبی جانتا ہے دنیا اگر آواز اٹھاتا ہے، تو ایک قوم پر جبرو بریت کے خلاف پھر اگر دنیا آواز اٹھاتا ہے ایک تحریک کو بزور طاقت کچلنے کے خلاف دنیا اگر سپورٹ کرتا ہے ایک آزادی کی تحریک کو انسانی حقوق کے علمبردار اگر کوئی ایکشن لینگے تو وہ قوموں اور انسانوں پر ظلم ستم کے خلاف ایسا آج تک نہیں ہوا، کوئی پروکسی کو سپورٹ کرے اور پھر پاکستان کے پاس جواذ ہے کہ کوئی دوسرا ملک مجھ پر حملہ کرتا ہے، میں مجبور ہوں اپنی دفاع ضرور کرتا ہوں، اب بی ایل ایف اور اس کے ہمدردوں کو ایران کا پروکسی ثابت کون کررہا اور کیوں کررہا ہے؟اور پاکستان کو کون جوازفراہم کررہا ہے؟سنجیدگی سے سوچنے اور غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پہلے مزاحمت کے بنیادی مرکز مری قبیلہ اور مری علاقہ کو نام نہاد ڈسپلن اور احتساب کے نام پر بی ایل اے اور یوبی اے کی آپسی لڑائی کیوں اور کس نے شروع کی؟اور نتائج کیا نکلے؟ اور وہ اصل حقائق کیا تھے؟فائدہ کیا ہوا؟بس مزاحمت بذات خود وہاں سے ایسا اڑ گیا پہلے ان ہی علاقوں پر پاکستانی کمانڈوز ، ہیلی کاپٹروں اور فوجی جانے سے خوف زدہ ہوتے تھے ،آج کاہان کیمپ سے گدھوں کو اٹھاکر پیدل پہاڑوں و غاروں سے اسلحہ ساز و سامان کو نکال کر کیمپ لے جار ہے ہیں، وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر، کوئی مزاحمت نہیں ہورہا ہے کیوں؟کیونکہ مزاحمت خود انا اور ضد کی تابوت میں دفن ہوگیا،اس تلخ حقائق کے باوجود اگر اب مکران میں مزاحمت سرگرم ہے، لوگ متحرک و تیار ہیں ان کو ایران کا ایجنٹ قرار دینا پاکستانی ریاست اور دنیا کو جواز فراہم کرنا، پھر کیا تحریک کو صرف بیرون ممالک میں مظاہرے اور پوسٹرسازی کی حدتک محدود رکھنے کی ایک باقاعدہ کوشش نہیں ہے؟

پھر محدود حدتک سرگرمیوں سے نہ آزادی ملے گا نہ دشمن کوکوئی تکلیف ہوگا ،دشمن خود کہتا ہمیشہ نعرہ بازی کرو، تقریر کرو، گالی دو، بس مزاحمت اور مزاحتمی تنظیموں اور مزاحمتی عمل سے لاتعلقی ہوجاؤ۔

میرے خیال میں آج کسی کو اندازہ نہیں ہورہا ہے، کوئی سابقہ کوئی موجود ضد و انتقام ،حسد و بغض اور مقابلہ بازی کوئی شوق کمانڈری کوئی شوق لیڈری، کوئی شوق ترجمانی کوئی بس صرف اور صرف خاندانی اور گھریلوں غرض اور اخرجات کو مدنظر رکھ کر پورے تحریک کو داؤ پر لگانے کے عمل میں برابر شریک ہورہے ہیں ،کم از کم کسی بھی ذی شعور اور ہوش و حواس رکھنے والا انسان سابقہ تمام تلخ تجربات اور حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر ایسے کسی بھی عمل کا نا حصہ بنے گا، نا ہی حمایت کرے گا جو تاریخ میں رسوائی ثابت ہو۔

تحریک کے تمام ہمدردوں کو ان تمام خطرناک معاملات پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور جلد واضح حکمت عملی ترتیب دینا ہوگا وگرنہ بڑے سے بڑے خطرات اور نقصانات کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔