سوشل میڈیااور اُس کا مثبت استعمال – نوکاپ بلوچ

597

سوشل میڈیااور اُس کا مثبت استعمال

نوکاپ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج پوری دنیا سکڑ کر ایک گا ؤ ں (global Village )کا شکل اختیار کر چکا ہے جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ ہزاروں کلو میٹر دور رہنے کے با وجود بھی نزدیک ہیں ، اس جدید ٹیکنا لوجی (انٹر نیٹ ) نے انسانی تعلقا ت میں نئی جدت پیدا کی ہے نت نئے شکلیں پیدا کر کے ان کے دائرے کو وسیع بنیاد دی ہے۔

1983کو انٹر نیٹ کی ایجاد کے بعد دنیا میں ایک خو بصورت انقلاب بر پاہوا۔ آئن لا ئن On Lineنے 1990میں مز ید تر قی کے منازل اس وقت طے کی جب کمپو ٹر ماہر ین نے World Wide Wibکی ایجاد میں کامیابی حاصل کی۔ پھر انٹر نیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا نے جدید دنیا میں روابط Commincationکو ایک نئی شکل دی، بتایا جاتا ہے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ یورپی ممالک میں رہتے ہیں استعمال کرنے والوں کی تعداد 50/فیصد کے قریب ہے 2000کے بعد انٹر نٹ کی دنیا میں کچھ ایسی تبدیلی سوشل میڈیا کے سائٹ کی صورت میں سامنے آئیں جنہو ں نے لو گوں کو مزید قریب کر دیا ہے ایک فر د دوسرے فر د سے سیکنڈوں میں بات کر سکتے ہیں صر ف چھوٹی سی آلہ استعمال کر کے جسے فو ن اور لپ ٹاپ کہتے ہیں جہاں آپ انٹر نیٹ کی مد د سے فیس بک واٹساپ انسٹاگرام ،ٹو یٹر جیسے Apps موجو د ہیں، جیسے آپ اپنے پروگرام خیالا ت نظریات کو بہت جامعہ انداز میں انٹر نیٹ کے ذریعے اظہار کر سکتے ہیں، آج ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کے کسی کو نے میں رونما ہونے والے واقعات کو دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے سیکنڈز میں پہنچاسکتے ہیں۔

اسی سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر میں لو گ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جس میں امر یکہ ہو یا انڈیا چائنا ہو یا جاپان جیسے تر قی یا فتہ لوگ یا تر قی پزیرممالک جیسے کہ عرب ممالک رہے، وہ یہاں سے اپنے پیغامات کو پہنچا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا نظر یات کو پھیلانے کے لیئے بہتریں ذریعے ہیں لوگ بہتر انداز میں پھیلا رہے ہیں ،اگر آپ آج دنیا بھر کے کونے کو نے پر نظر ڈالیں، تو آج کل ہر نا انصافی کے خلا ف بہتر سے میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں، یہ خیال تیز ی سے ابھر رہاہے کہ ناانصافی کے خلاف آواز بلندکرنا اس ابھار میں سب سے بڑا رول اگر سوشل میڈیا کو کہیں تو غلط نہیں ہو گا ،سوشل میڈیا کا رول زندگی کے ہر مسئلے میں نظر آتی ہے، اگر جا ئزہ لیں تو عرب ممالکوں میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے یا جو ہو چکی ہے اس تبدیلی میں سوشل میڈیا کے بہت مثبت اثرات ہیں، آج ان ممالک میں سوشل میڈیا پر اس لئے زیادہ سے زیادہ پابندی موجودہے جو بنیادی انسانی حقوق کیخلاف ہے، بادشاہی نظام یا جدید الفاظ میں ڈکٹیٹر شپ کہیں تو سمجھنے میں آسانی ہو گی جو وہاں قائم تھا اس کے لوگوں میں آگاہی سوشل میڈیا نے دی ہے ، اسے سیاسی زبان میں عرب اسپر نگ Arab Springکہا جا تا ہے اِس کا آغاز 14جنو ری 2011کو عرب ملک تیو نس سے شروع ہو تا ہے طویل عرصے سے رہنے والے حکمران زین العابدین بن علی کے حکومت کا تختہ الٹ کر پو ری دنیا کو حیران کر ڈالا، پھر یہ تحریک سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل کر پوری عرب دنیا میں پہنچ جاتی ہے، جہا ں برسوں سے اقتدار میں رہنے والے عرب شہنشاہوں کے نیندین حرام کر دیتی ہے، پھر یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس تحریک کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے عالمی قوتیں اپنے اپنے مفادات کی خاطر خطے میں ایک تباہ کن خانہ جنگی پیدا کردیتے ہیں، پھر وہاں اپنے ہم خیال نا اہل حکمران بٹھاتے ہیں لیکن اس تباہ کن خانہ جنگی بڑی بڑی فوجی کا رؤائیوں داعش کے ظہور اور اسکی سفاکی کے باوجود خطے میں مو جود نوجوان نسل سوشل میڈیا کے وجہ سے پرجو ش اور تما م صورت حال ے باخبر ہے، مذہبی انتہا پسندی اور گندے نظریا ت کو ختم کر نے کیلئے نیشنلزم کے نظریا ت کو جنم دینے کی بھر پور کو شش کر رہے ہیں۔

کرد یزیدی سب بڑی مثالیں ہیں مسلط کی گی خا نہ جنگی، عالمی طاقیتوں کے گندے کھیل کے با وجود اپنے حقوق کو نظریات سے دست بردارنہیں ہو رہے ہیں، جنوبی ایشیاء کے اہم خطے بلوچسان میں نیشنلزم کے بنیادپر جو تحریک موجود ہے اور پیدا ہو رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذرائع ان کا پھیلا ؤ مزید تیز ہو رہا ہے، اس پھیلا ؤ میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال قابل ذکر ہے اسی نظریے کو ختم کرنے کیلئے ریاستیں ظلم و جبر فوجی کا روائی لوگوں کو اپنے اپنے آبائی علا قوں سے بے دخل کر نے پھر انکے گھروں کو مسمار کرنے لو ٹ مار اپنے لو گو ں کی حق کے لئے آواز بلند کرنے والے افرا د کو قتل کر نے قید و بند اذیت دینے خانہ جنگی پید ا کرنے لو گوں کے نظریا ت کو ختم کر نے مذہبی روجحانات پیدا کر نے جیسے حربے استعمال کر تے ہیں لیکن اسی کے باوجو د تحریک کو ختم نہیں کرسکے ہیں، اس میں بلوچستان کے قومی آزادی تحریک سر فہر ست ہے۔

پاکستان میں رہنے والی قومیں قومی نظریا ت کے بنیاد پر پُرجو ش انداز میں آگے آنا ان مظلوم طبقوں کے آپس میں اتحاد دوستی خیالا ت میں بہتر انداز میں تبادلہ سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہو رہا ہے، اب ان قوموں کے نو جوا نوں کے قومی رہنما ؤ ں پر ہے کہ وہ اس موثر آواز یا دوستی کو کس طرح منظم کرتے ہیں سوشل میڈیا کی اہمیت نہ عہد حاضر میں انٹر نیٹ ٹیکنالو جی کی اہمیت اور اسکی افادیت و ضرورت سے انکا کسی بھی صورت میں ناممکن ہے چاہئے روز مرہ ذاتی استعمال ہو ،سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ آپ اس طرح ریاستی قدغنوں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں، بلوچستان کے/ 50 فیصد سے زیادہ آبادی کو اس جد ید ٹیکنالو جی سے محروم رکھا گیا ہے ،اس کاا عتراف حکومتی ادارے ptaخو د کر چکاہے لیکن اگرمیں کہوں/ 70فیصد سے زیادہ لوگ اس سے محرم ہیں کیو نکہ بلوچستان میں شہر کم دیہا ت زیادہ ہیں جو اسوقت موبائل کی سہو لت سے محرم ہیں، بلوچستان میں ریاست پاکستان کی جانب سے جو زیادتیاں ہیں، آپر یشن کے ذریعے سے لوگ نقل مکانی پر مجبو ر ہو چکے ہیں۔ جہاں قومی آزادی کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں، لوگوں میں پاکستان کے خلاف نفرتیں ہیں، ان تمام کو دنیا تک پہنچانے پھیلا نے میں روک سکیں، اس جدید ٹیکنالوجی کو مختلف ممالک اپنے جرا ئم چھپانے کی ڈر سے پابندی لگانے کی کو شش کررہے ہیں کبھی قومی مفادات کے بچانے تو کبھی سلا متی کے نام پر مختلف انداز میں پابندی لگانے کی کو ششیں کر رہے ہیں جدید انٹرنیٹ کی بدولت معاملات دیر تک چھپ نہیں سکتے۔ چاہے حکمرانوں کی زیادتیاں ہوں، ریاستی مظالم ہوں، کو ئی واقع جو جدید اور وسیع زہن رکھنے والے نو جو انو ں کو قابل قبول نہ ہو۔

سوشل میڈیا کی مثبت استعمال اور اُس کے فوائد کے بارے میں میں نے بہت کوشش کی ہیں کہ انٹر نیٹ کے بارے میں ذکر کر سکوں، تاکہ اصل مقصد کو آپ سمجھ سکیں، کہنے کا مول ومراد ذہن میں آئے اس جد ید دور میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی اہمیت سے ہرایک واقف ہے کہ دنیا کے اکثر چیزوں کے بارے میں گوگل سے جانکاری مل سکتا ہے ،ساتھ ہی فیسبک، ٹویٹر ،انسٹاگرم ،وغیر ہ اظہار رائے کو مزید آسان کر دیتے ہیں، ہر ایک کسی بھی وقت کچھ بھی لکھ کر یا کہہ کر دنیا تک اپنا پیغام پہنچانے میں سب سے آسان طریقہ ہے، اس سے دنیا کے اکثر لوگوں نے بہت فائدہ اٹھایاہے اور اٹھا رہے ہیں۔

اگر ہم پاکستان کا ذکر کریں تو یہاں پی ٹی آئی جو موجو دہ حکمران جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے لو گوں کو متوجہ کیا ہے اور کر رہے ہیں ،ایک اور بہتر تبدیلی وہ صوبے خیبر پختو اہ سے رونما ہو ئی ہے جسے آج کل پی ٹی ایم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب 2017کو پی ٹی ایم بنتی ہے تو کم ہی لوگوں کو معلوم ہو تا ہے منظور پشتین کون ہے، تو یہ ایک ہم خیال گروپ بنا تے ہیں جو سوشل میڈیا کا سہا را لیتے ہیں جو آگے جا کر ایک مضبوط سماجی اور انسانی حقوق کا ادارہ بنتا ہے۔ اس ادارے کی مضبوطی سوشل میڈیا کی مرہو ن منت ہے وہ جائز حقوق کے مطالبے سے سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے لو گوں کو متو جہ کر دیتے ہیں، اپنا پیغام دنیا تک منظم طریقے سے پہنچاننے میں کا میاب رہے ہیں۔

آج پشتون نو جوانوں بھی بہتر طریقے سے آج پی ٹی ایم سے جڑ چکی ہے یہ انکی اصل کامیابی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے کام کر رہے ہیں۔

اب ہم ذکر کر تے ہیں بلوچ نو جو ان کس طرح فائدہ مند ادارے کو بہتر استعمال کر تے ہیں پہلی بات تو یہ ہے ہما را ایجو کیشن ریشو کتنا ہے اور کتنے لوگ اسے منظم طریقے سے بطور میڈیا استعمال کر رہے ہیں، بہتر ین نتیجے حاصل کرنے میں کا میاب رہے ہیں؟ کتنے لوگ اسے اپنے خلاف استعمال کر چکے ہیں۔ اس لئے بی این ایم کے لیڈر چیرمین خلیل بلوچ سمیت اکثر بلوچ رہنماؤں نے پیغام دے کر سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی جو تلقین کی ہے اب ان پر واقعی عمل در آمد کر رہے ہیں، اب نازک دور کو سمجھنے کی خاطر اسے بہتر سے بہتر استعمال کر یں ،تاکہ پسے ہو ئے لوگو ں کی حقیقی آواز کو دنیا کے کو نے کونے میں پہنچاننے میں کامیا ب رہیں، یہ بات طے ہو چکاہے کہ قومی آزادی کی جدوجہد مضبوط تنظیم مضبوط اداروں کے بدولت ممکن ہے اور آج یہ قومی تحریک مکمل طورپر تنظیم اور پارٹی پر یقین کرنے والوں کے ہاتھ میں آچکا ہے اور مزید اس جد ید دور میں سوشل میڈیاکو مثبت اور مو ثر انداز میں استعمال کرتے ہو ئے قومی مسائل ریاستی جبر، اداروں کو مضبوط کر نے، اتحادی عمل کو مزید خوبصورت اور جامع بنانے کیلئے اور قومی تحریک بین الا قومی فورم پر لے جانے کی کو شش کریں۔

کچھ دوست نادان اور گروہی سوچ رکھنے والے دوست سوشل میڈیا کو غلط استعمال کر کے بے تحاشہ نقصان پہنچا رہے ہیں، سوشل میڈیا ماس مو بلا یزیشن کے لئے ایک مو ثر فورم ہے بجا ئے ہم اپنے اداروں کے معاملا ت کو سوشل میڈیا کی زنیت بنا دیں اور مزید انتشار اور ابہام پیدا کریں کچھ لو گوں کی یہی بحث ہیکہ اس وقت جو ادارے قائم ہیں وہ ideal شکل اختیا ر نہیں کرچکے ہیں، اگر ہم کہیں کہ حقیقت ہے۔۔! تو بہت سے سوال جنم لیتے ہیں مگر ہم دوستوں کو گوش گذار کر تے ہیں کیو ں اداروں کوideal بنا نے کے لئے جد وجہد نہیں کر تے ہیں؟ اب وقت کا تقاضہ یہی ہے دنیا کو متو جہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لو گوں کو حقیقی روپ دینے میں منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے، سیا سی کارکن سمیت بلوچ لیڈر ز وقت کت تقاضو ں کو سمجھیں اب ایک بحث عام ہو چکا ہے کہ جد ید دور میں میڈیا ریاست کی پلر کی حیثیت رکھتا ہے میں کہتا سوشل میڈیا پسے ہو ئے قوم کی آواز کو آگے لے جانے میں پلر کی حٰیثیت رکھتا ہے .

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔