بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خلاف خاموشی جرم ہے، قوم اٹھ کھڑی ہو۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

75

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ زہری میں ریاست کی جانب سے نافذ کردہ کرفیو کو پچیس دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، علاقے میں لوگ بھوک اور بیماری کے باعث جانیں گنوا رہے ہیں، جبکہ ریاستی فضائی حملوں کے نتیجے میں متعدد خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ریاست نے جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ کی پالیسیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ آواران میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو فوجی کیمپوں میں بلایا جاتا ہے اور بعدازاں ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں، مکران میں ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں رواں مہینے پانچ افراد کو قتل کیا گیا ہے، ان تمام اقدامات کا مقصد بلوچ قوم کو دبانا اور خاموش کرانا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو قید کیا جا رہا ہے، جبکہ تنظیمی اراکین کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچ قوم سے اپیل کی کہ وہ اٹھ کھڑی ہو اور بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم خاموش رہے تو یہ نسل کشی مزید بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ وقت خاموشی کا نہیں بلکہ مزاحمت کا ہے، کیونکہ ظلم کے خلاف بولنا ہی حقیقی قومی ذمہ داری ہے۔