پاکستان کے نیشنل کرائم اینڈ سائبر انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر نے بلوچ قوم پرست رہنما میر جاوید مینگل، بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل، ان کی علیل اہلیہ، حال ہی میں وفات پانے والے بھائی میر ظفر اللہ مینگل، اور ان کے بیٹوں و بیٹیوں کو انکوائری نمبر RE 413/2025 کے تحت طلب کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سردار اختر مینگل پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے تصدیق شدہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حمایت میں پوسٹ شیئر کی، جسے حکام “کالعدم فرد” قرار دے رہے ہیں۔
پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ یہ اقدام مبینہ طور پر “خوف و ہراس پھیلانے” کے مترادف ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں مقدمہ اور نوٹسز کے اجراء کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و دیگر سیاسی اسیران کی گرفتاری پر پارٹی کی جانب سے آواز بلند کرنے کی پاداش میں سردار اختر جان مینگل ، ان کی اہلیہ ، صاحبزادے و صاحبزادیوں اور بڑے بھائی مرحوم سردار زادہ ظفر اللہ مینگل جو وفات پا چکے ہیں ان کو ایف آئی اے کی جانب سے نوٹسز جاری کئے گئے۔ سردار اختر جان مینگل کی اہلیہ جو گزشتہ پانچ سالوں سے شدید علیل ہیں انہیں بھی نوٹس جاری کرنا باعث شرم ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی نے ہر دور حکومت چاہئے آمر حکمرانوں کی ہو یاسول ڈکٹیٹروں کی اصولی موقف اپناتے ہوئے قومی جمہوری جہد کی اور اب بھی غیرمتزلزل جدوجہد پر یقین رکھتی ہے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی ہویا قتل و غارت گری ظلم و بربریت کے خلاف پارٹی قیادت نے اپنا سیاسی کردار ادا کیا 20روز طویل دھرنا ، جلسے ، پہیہ جام ، شٹر ڈاﺅن ہڑتالیں جن میں بلوچستان کے غیور عوام کا ساتھ دینا حکمرانوں کو آج بھی ایک آنکھ نہیں بہا رہی۔ آڑنجی واقعہ کی برملا طور پرکالعدم تنظیم ذمہ داری قبول کر چکی ہے اس واقعے میں سرکاری کی ایماء پر مقدمہ کا اندراج سیاسی انتقامی کارروائی اور بد دیانتی پر مبنی ہے۔
دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ایکس پر بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ میں سردار اختر مینگل کو بھیجے گئے نوٹس کی مذمت کرتی ہوں، جس میں انہیں صرف ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حمایت کرنے کی وجہ سے ممنوعہ افراد کے مقاصد کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم حکومت سے پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو کب اور کس قانون کے تحت ممنوعہ فرد قرار دیا گیا؟ کون سی نوٹیفیکیشن یا قانونی حکم اس بات کو ثابت کرتا ہے؟
انہوں نے کہاکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہیں اور یہ آئین، انسانی حقوق اور انصاف کی خود خلاف ورزی ہیں۔
مزید کہاکہ اگر آج کوئی قانون توڑ رہا ہے تو وہ ریاستی ادارے ہیں جو شہریوں کو اغوا کرتے ہیں، ان کے خاندانوں پر تشدد کرتے ہیں اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے سردار اختر مینگل کو بیجھے گئے نوٹس پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ کب سے سے مظلوموں کی حمایت کرنا جرم بن گیا؟ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بلوچستان کی بیٹی ہیں، اور ان کی جدوجہد انسانیت، انصاف، اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہے، نہ کہ کسی غیر قانونی ایجنڈے کے لیے۔