ڈرون وارفئیر، روس اور یوکرین جنگ کے تناظر میں۔ سرگئی توف کاچ کے انٹرویو کا خلاصہ – ہارون بلوچ

103

ڈرون وارفئیر، روس اور یوکرین جنگ کے تناظر میں۔ سرگئی توف کاچ کے انٹرویو کا خلاصہ

ترتیب و مرتب: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس وقت ڈرون ٹیکنالوجی جنگی حکمت عملی میں ایک فیصلہ کن اور منظم ہتھیار کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی ہے۔ دنیا بھر کی ریاستیں جدید جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کو نہ صرف اپنا رہی ہیں بلکہ اس میں تیزی سے سرمایہ کاری بھی کر رہی ہیں۔ عسکری میدان میں یہ ٹیکنالوجی روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر، سستی اور خطرناک نتائج فراہم کر رہی ہے۔دنیا کی بڑی دفاعی و ٹیکنالوجی کمپنیاں اربوں ڈالر کی لاگت سے ڈرونز کی نئی اقسام تیار کر رہی ہیں، جن میں جاسوسی، حملہ آور، خودکش (کamikaze)، اور انٹرسیپٹر ڈرونز شامل ہیں۔ روایتی جنگ (Conventional Warfare) میں ڈرونز نے نہ صرف شدت میں اضافہ کیا ہے بلکہ جنگی حکمت عملی کو بھی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ٹیکنالوجی مزید منظم، ذہین اور مہلک ہوتی جا رہی ہے، جس سے مستقبل کی جنگوں کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔

اس وقت بلوچستان میں قابض پاکستانی فوج جدید ڈرون ٹیکنالوجی کو منظم انداز میں ایک مؤثر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ بلوچ سرمچاروں کی نقل و حرکت کی نگرانی، ناکہ بندیوں کے دوران فضائی سرویلنس، عام عوام کی نگرانی، احتجاج و جلوسوں میں جاسوسی، اور بلوچ آزادی پسندوں کے کیمپوں پر گائیڈڈ میزائل حملوں تک ڈرونز اب ریاست کے کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ کواڈ کاپٹرز کے ذریعے ہدفی حملے، محدود دائرے میں تیز رفتار کارروائیاں، اور عمومی طور پر خوف و ہراس پھیلانے کی حکمت عملی میں ڈرونز اب ریاستی قوت کا مرکزی ہتھیار بن چکے ہیں۔ یہ نہ صرف روایتی نگرانی کا متبادل ہیں بلکہ فوری، درست اور نسبتاً کم خطرے کے ساتھ جنگی نتائج حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بن چکے ہیں۔

ایسے میں ضروری ہے کہ بلوچ نوجوان موجودہ عسکری منظرنامے کا ادراک حاصل کریں، اور خاص طور پر ڈرون وارفئیر کے میدان میں خود کو نظریاتی، تکنیکی اور عملی طور پر تیار کریں۔ ڈرونز صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ ایک پورا نظام جنگ ہے جس میں الیکٹرانک وارفئیر، سائبر انٹیلیجنس، ریئل ٹائم اٹیلیجنس، اور خودکار حملہ جیسے عناصر شامل ہیں۔ آج بیشتر ریاستیں کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز میں الیکٹرانک اور ڈرون وارفئیر کو ترجیح دے رہی ہیں کیونکہ یہ کم لاگت، کم جانی نقصان اور زیادہ نتائج فراہم کرنے والے حربے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں سائنسی، ٹیکنیکل اور نظریاتی بنیاد پر مہارت حاصل کریں، ڈرون ٹیکنالوجی کو گہرائی سے سمجھیں، اور مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں اس کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔ یہ وقت ہے کہ بلوچ قومی مزاحمت جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلائے کیونکہ آج کی جنگ محض گولی اور بارود سے نہیں، بلکہ ڈیجیٹل سمارٹ ٹیکنالوجی سے بھی لڑی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں سرگئی توف کاچ جو روس میں ایک پرائیویٹ ڈرون پیدا کرنے والی کمپنی کے سربراہ ہیں ان کی انٹرویو سامنے آئی جو اس کو بہترین انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ اس خصوصی انٹرویو میں میزبان ایک روسی فوجی ڈرون بنانے والے ماہر سے اس کے خفیہ ورکشاپ میں گفتگو کرتا ہے۔ بات چیت میں جدید ڈرون جنگوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں FPV کامیکازے ڈرونز، فائبر آپٹک گائیڈنس سسٹمز، جمنگ حکمت عملیاں اور انٹرسیپٹر ڈرونز شامل ہیں۔ انٹرویو میں یہ بھی بتایا گیا کہ روس اور یوکرین دنیا میں ڈرون جنگوں کے سب سے جدید تجرباتی میدان بن چکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بحث بھی کی گئی کہ چینی ٹیکنالوجی کیوں پیچھے ہے اور مغربی ممالک اس دوڑ مین کیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔

سرگئی کے مطابق اس وقت روس اور یوکرین دنیا میں ڈرون ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہیں۔ امریکی ڈرونز جیسے Switchblade ناکارہ ثابت ہوئے، اس جنگ میں مغرب کی جانب سے جو واحد موثر چیز سامنے آئی، وہ Starlink ہے۔ ان کے بقول اگر یوکرین سے Starlink ہٹا دیا جائے تو ان کے نیول ڈرونز مکمل طور پر ناکارہ ہو جائیں گے۔ چینی ڈرون ٹیکنالوجی پر سرگئی کہتے ہیں کہ چینی بھاری ڈرون ضرور بناتے ہیں لیکن انہیں بچوں کے کھلونوں کی مانند تیار کرتے ہیں، یعنی معیاری فوجی استعمال کے لیے وہ زیادہ قابلِ بھروسہ نہیں۔

سرگئی کے مطابق جنگ کے ابتدائی مرحلے میں زیادہ تر ہلاکتیں توپ خانے (آرٹلری) سے ہو رہی تھیں، لیکن اب تقریباً 70 فیصد جانی نقصان ڈرونز سے ہو رہا ہے۔ پیادہ فوج کی حفاظت کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں واحد حکمت عملی تیزی سے دوڑنا ہے۔ بیگ میں رکھے جانے والے جامرز (Backpack jammers) بھی ڈرونز کو روکنے میں ناکام ہیں، خاص طور پر فائبر آپٹک ڈرونز کے خلاف تو کوئی توڑ موجود نہیں۔

یوکرینی ڈرائیورز کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یوکرینی گاڑیاں جب محاذ کے قریب پہنچتی ہیں تو ڈرون محض 15 میٹر کے فاصلے سے لانچ ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یقینی تباہی ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو وہ “خالص جہنم” قرار دیتے ہیں۔ اب ڈرون آپریٹرز صرف تربیت یافتہ فوجی نہیں بلکہ زیادہ تر گیمرز ہیں جو اب ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ پہن کر محاذ پر جاتے ہیں۔ یوکرین کے ber-drone کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یوکرینیوں نے اس سے اینٹی ٹینک مائنز گرانے کی تکنیک بھی ایجاد کر لی ہے جس کے دھماکوں نے میدان جنگ میں اس ڈرون کو بدنام کر دیا ہے۔

سرگئی کے مطابق یوکرینی بار بار جن ڈرونز کو شاہد کہہ رہے ہیں، وہ دراصل اس سے کہیں زیادہ جدید ہو چکے ہیں۔ یعنی روسی ڈرون پروگرام نے نہ صرف پرانے ایرانی ماڈلز سے آگے نکل کر اپنی جدید قسمیں بنا لی ہیں بلکہ میدان جنگ میں ان کی افادیت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ روسی دفاعی صنعت کی تیز رفتار ترقی کا ایک ثبوت ہے۔

سرگئی ڈرون انٹرسیپٹر کی وضاحت کرتے ہیں، یہ ایسے ڈرونز ہوتے ہیں جو دوسرے ڈرونز کو مار گرانے کے لیے بنائے جاتے ہیں، خاص طور پر اُنہیں جو زیادہ بلندی پر اڑ رہے ہوں۔ مستقبل میں ڈرون وارفئیر پر بات کی جائے تو نجی کمپنیاں اس میدان میں ریاستی اداروں سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ سرکاری دفاعی کمپنیاں عموماً سست، بدعنوان اور تنخواہ لینے والی نیم مردہ بیوروکریسی کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ نجی شعبہ زیادہ پرجوش، لچکدار اور جدت پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس جیسے ملک میں جہاں جنگ کی شدت نے اچانک خامیوں کو بے نقاب کیا، نجی اسٹارٹ اپس نے آگے بڑھ کر اس خلا کو پُر کیا۔ خود سرگئی اسی نجی جدوجہد کا حصہ ہیں جو روسی فوج کے لیے جدید ڈرون تیار کر رہے ہیں۔

سرگئی کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز پر روس ڈرون ٹیکنالوجی میں شرمناک حد تک پیچھے تھا، لیکن اب روس نے صرف تعداد میں نہیں بلکہ معیار اور حربی حکمت عملی میں بھی یوکرین کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک خاموش مگر موثر مقابلہ ہے جو ہمیں روس کی دفاعی صنعت میں نجی شعبے کے ابھرتے کردار کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

اس کے بعد سرگئی اپنے ڈیزائن بیورو کا مختصر تعارف کراتے ہیں۔ وہ مقام خفیہ رکھتے ہیں لیکن یہ بتاتے ہیں کہ یہاں چھوٹے پیمانے پر جدید تجرباتی ماڈلز اور پروٹوٹائپ تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان میں فوجی اور سائنسی دونوں اقسام کی تحقیق ہو رہی ہے۔ جب ایک بھاری کلاس کے تجرباتی ڈرون کے پروپیلر پر سوال ہوا تو سرگئی نے کہا کہ ان کے پروپیلر بیچ ووڈ (قدرتی لکڑی) سے بنے ہیں۔ یہ بظاہر پرانے دور کی چیز لگتی ہے لیکن جنگی معیشت میں یہ انتہائی موزوں ہے کیونکہ کاربن فائبر کے مقابلے میں 10 گنا سستا ہے، کارکردگی میں صرف 4، یا 5 فیصد کمی آئی ہے، روس میں لکڑی وافر اور سستی دستیاب ہے، فی یونٹ لاگت تقریبا 30 ڈالر بنتی ہے۔ یہ حکمت عملی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بڑے پیمانے کی جنگ میں زیادہ بہتر اور سستا نظریہ زیادہ اہم ہو جاتا ہے بہ نسبت زیادہ جدید اور مہنگا ہے۔

روس میں ڈرون کمپنی نہ ہونے کے ایک سوال کے جواب میں سرگئی کہتے ہیں کہ روس کی افواج کی بڑی اکثریت نے UAV (ڈرون) کا تصور پہلی بار 2022 میں سنا اور سمجھا، حالانکہ 2014 سے ڈونباس میں جاری جنگ میں ڈرونز محدود سطح پر استعمال ہو رہے تھے۔ اُس وقت ڈرونز کے لیے فنڈنگ ناکافی تھی، اور انہیں خودکشی مشن (kamikaze missions) پر بھیجنے کا خیال معاشی طور پر ناقابل عمل سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ سرگئی کے مطابق وہ خود بھی پہلے اس سوچ کے حامی تھے لیکن ان کے بقول جنگی معاشیات کے بدلتے زاویے  نے ان کی رائے میں تبدیلی لائی اور اس کی اہمیت کو سمجھنے لگے۔ سرگئی اب تسلیم کرتے ہیں کہ اگر تباہ کیے جانے والے ہدف کی مالیت کے حساب سے لاگت نکالی جائے تو ڈرونز انتہائی سستے ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔ صرف دو سے تین کلو ڈرون، جن کی مجموعی لاگت $1000 سے $3000 کے درمیان ہوتی ہے، ایک ٹینک یا Infantry Fighting Vehicle تباہ کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک امریکی Humvee کو تو ایک ہی ضرب میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ جن کی قیمتیں کروڑوں میں ہے۔

مغرب کے ہتھیاروں پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی ہتھیاروں کی بڑی مقدار یوکرین پہنچا کر مغرب نے خود روسی ماہرین کو اپنے جدید ترین ہتھیاروں کو قریب سے جانچنے کا موقع فراہم کیا۔ روسیوں نے ان ہتھیاروں کی کمزوریاں دریافت کیں، مثلاً، ابرامس ٹینک کا عقبی ٹریٹ کمپارٹمنٹ ، جہاں گولہ بارود رکھا جاتا ہے، اگر یہاں حملہ کیا جائے تو وہ فوراً آگ پکڑ لیتا ہے۔ سرگئی کھل کر اعتراف کرتے ہیں کہ روسی فوج ابتدا میں ڈرون وارفیئر کی اہمیت سمجھنے میں بری طرح تاخیر کا شکار رہی۔ جب تک حقیقت کا ادراک ہوا، تب تک ان کے پاس کوئی مربوط ڈرون انڈسٹری موجود نہیں تھی، جس کی وجہ سے نجی شعبے اور چھوٹے ڈیزائن بیوروز (جیسا کہ سرگئی کی ٹیم) نے یہ خلا پُر کیا۔

سرگئی مغرب کو بھی اس معاملے میں پیچھے سمجھتے ہیں، ان کے بقول مغرب کے پاس بے پناہ ٹیکنالوجی اور مالی وسائل کے باوجود وہ خود بھی اس طرح کے بڑے اور ٹیکنالوجیکل الات پر مبنی جنگ کیلئے تیار نہیں تھی۔ وہ امریکی Switchablade ڈرونز کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنہیں ابتدا میں یوکرین بجھوایا گیا مگر وہ بری طرح ناکام رہے اور اپنے ہدف حاصل کرنے میں کافی ناکامی دیکھائی۔ امریکہ کی Switchblade 300 کو وہ ایک مذاق قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ شاید صحرا میں اونٹوں کا پیچھا کرنے کیلئے ٹھیک ہو، لیکن اگر یہ کسی اچھی طرح سے بکتر بند فوجی پر گرے تو شاید صرف معمولی زخمی کرے، ہلاک نہیں کر پائے گا۔ امریکی Switchblade 600 کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کچھ زیادہ طاقتور ہے، لیکن قیمت انتی زیادہ ہے کہ اس کا استعمال معاشی طور پر ناقابل جواز ہو جاتا ہے۔ سرگئی کے مطابق یہ پورے یوکرین میں صرف تقریباً 10 بار استعمال ہوا ہے جو اس کی افادیت پر خود ایک فیصلہ کن تبصرہ ہو سکتا ہے۔ امریکی ڈرونز کے ساتھ ساتھ وہ مغربی ڈرونز کا بھی مذاق اڑاتے ہیں، ان کے بقول مغربی ڈرونز جیسے کہ Phoenix Ghost, Scan Eagle, یہ ایسے ڈرونز جس کے پرزے جیسے کسی ہائی اسکول ورکشاپ میں سستے چینی گوند اور زپ ٹائز سے جوڑ دیے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ Boeing جیسی بڑی امریکی کمپنی کا پروڈکٹ ہے اور قیمت میں ، آدھے ٹینک کے برابر ہے۔

سرگئی کہتے ہیں کہ یوکرین کو جنگ کے میدان میں جلدی اس بات کا اندازہ ہوا کہ مغرب کے ڈرونز جنگ کے میدان میں بیکار ہیں اور انہیں اپنی انڈسٹری بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یوکرینی اب مغربی ڈرونز کو چھوڑ کر مقامی طور پر اپنے ڈرون تیار کر رہے ہیں جیسے کہ Lea, Fury, Valkryie, ڈرونز ہیں۔ ان مقامی یوکرین ڈرونز کی کارکردگی مغربی سسٹمز کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ یوکرینیوں نے جلد یہ سمجھ لیا کہ مغربی ڈرونز روسی جامنگ کے سامنے ناکام ہو رہے ہیں، اس لیے اپنی انڈسٹری کھڑی کر لی۔ سرگئی کے خیال میں مغرب کی ناکامی کی بنیادی وجہ ساختی مسئلے میں ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دہائیوں سے غیر روایتی جنگیں لڑ رہے ہیں، مثلاً مشرق وسطیٰ میں ہلکی مزاحمت والے دشمنوں کے خلاف، جہاں دفاعی نظاموں اور اسٹریٹجک برتری کا کوئی سنجیدہ امتحان نہیں تھا۔ روس جیسے جدید عسکری حریف کے خلاف براہ راست ٹکر کی حقیقی آزمائش اب سامنے آئی ہے، جہاں مغریب نظام ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال امریکہ براہ راست اس جنگ میں مکمل طور پر شامل بھی نہیں ہوا، امریکی دفاعی اندسٹری اور سائنسی ادارے صرف 5 فیصد صلاحیت سے کام کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی مکمل طور پر ناکام ثابت دکھائی دے رہے ہیں۔

سرگئی یوکرینی انجینئروں کے قومی نفسیات کا ٹیکنالوجیکل وارفئیر کے اندر نفسیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ یوکرینی ماہرین اپنے ہر ڈرون میں اپنے قومی تشخص کو اس شدت سے سمو دیتے ہیں کہ ہر جگہ نیلا اور پیلا رنگ چھایا ہوا ہوتا ہے، حتیٰ کہ تاروں، ٹیپ اور سرکٹس تک میں بھی قومی پرچم کی رنگت موجود رہتی ہے۔ یہ تکنیکی سے زیادہ ایک جذباتی اور علامتی جنگی اظہار ہے۔ لیکن محض علامتی پہلو نہیں تکنیکی میدان میں بھی یوکرینی ڈرونز کی دنیا میں معیار کا ایک وسیع اسپیکٹرم موجود ہے۔ کچھ ڈرونز کے اندرونی سرکٹ ڈیزائن انتہائی کمزور ہیں، لیکن کچھ واقعی میں غیر معمولی طور پر جدید بھی سامنے آئے ہیں۔ وہ یوکرینی ڈرونز کے عملی میدان میں کردار کی تعریف کرتے ہیں۔

وہ اس معاملے میں دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فی الوقت یوکرین اس شعبے میں روس سے کچھ آگے نکل چکا ہے۔ یوکرین کی اس برتری کا اصل راز ان کے ادارہ جاتی نظام میں پوشیدہ ہے۔ وہاں نجی انجینئروں کو براہ راست فوج کے ساتھ کام کرنے کی سہولت حاصل ہے، جس کے نتیجے میں ان کے پروٹوٹائپ تیز رفتاری سے فرنٹ لائن تک پہنچتے ہیں۔ ہر نیا ماڈل جنگ میں فوری طور پر آزمایا جا سکتا ہے، اس کی خامیاں اور خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں، اور انجینئر اگلی قسط میں بہتری لا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس روسی نظام نجی اداروں کیلئے ایک ایسا نوآبادیاتی بیوروکریٹک دلدل ہے جسے عبور کرنا عام آدمی کیلئے ممکن نہیں ہے۔ کاغذی کارروائیاں، مالیاتی پیچیدگیاں، اور قانونی رکاوٹیں نجی ترقی کا گلا گھونٹ دیتی ہیں۔ گویا روس میں ہر قدم نظام کی مدد سے نہں بلکہ نظام کی مخالفت کے باوجود اٹھایا جا رہا ہے۔ سوویت ورثہ آج بھی روسی دفاعی صنعت پر ایک سایہ بن کر طاری ہے۔ لیکن سرگئی کے مطابق حالیہ یوکرین وار اور اس میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے اب رفتہ رفتہ روس میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ جنگ میں شدت نے نجی اداروں کو مجبوری کے تحت ریاستی نظام میں شامل ہونے پر مبجور کر دیا ہے اور وزارت دفاع نے بالآخر نجی ڈرون فرموں سے یو اے ویز خریدنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ابتدا میں جو چیز ایک مکمل انتشار تھی، اب رفتہ رفتہ ایک ارتقائی روازن کی شکل اختیار کر رہی ہے۔

چین پر بات کرتے ہوئے سرگئی کہتے ہیں کہ تکنیکی سطح پر چین کی ترقی قابلِ ذکر ہے، وہ مغرب سے بمشکل ایک آدھا قدم پیچھے ہے لیکن اس پوری صنعت میں اصل فیصلہ کن عنصر محض ٹیکنالوجی نہیں بلکہ حقیقی جنگی تجربہ ہے۔ جس کا چین کے پاس فقدان ہے۔ چینی اسلحہ آج بھی میدان جنگ کی اصل سختیوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ اسلحے کو محض لیبارٹری یا پریڈ گراؤنڈ میں کارکردگی دکھانا نہیں بلکہ کیچڑ میں گرا ہوا، بارش میں بھیگا ہوا، جھٹکوں میں ٹکرا کر بھی عملی طور پر فوری طور پر کام کے قابل رہنا چاہیے۔ یہی وہ سخت جان معیار ہے جو چینی ہتھیار اب تک حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ سرگئی چین کے ہتھیاروں کا مذاق اڑا کر انہیں کھلونوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔

الیکٹرانکس کی عالمی سپلائی پر چین کا ذکر کرتے ہوئے سرگئی کہتے ہیں کہ یوکرین کو پورے مغربی الیکٹرانکس بازار تک رسائی ہے اور ان کے ڈرونز میں چینی چپس شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جبکہ روس پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں مکمل چینی الیکٹرانکس پر انحصار ناگزیر ہو چکا ہے۔ تاہم سرگئی کے بقول چینی چپس امریکہ معیار سے معمولی کمزور ضرور ہیں لیکن میدان جنگ میں یہ فرق نمایاں طور پر نقصان دہ نہیں، اور ان کی کم قیمت روس کیلئے معاشی لحاظ سے فائدہ مند ہے۔

سرگئی وضاحت کرتے ہیں کہ چینی مائیکروچپس اور الیکٹرانکس روس کیلئے ایک زبردست سہولت بن چکے ہیں۔ وہ نہ صرف 20 سے 100 گنا سستے ہیں بلکہ ہمہ وقت دستیاب بھی رہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان پر کسی قسم کی پابندیاں لاگو نہیں ہوتیں کیونکہ یہ چین میں تیار ہوتے ہیں۔ روسی کمپنیاں براہ راست ہزاروں مائیکرو کنٹرولر قانونی طور پر خرید سکتی ہیں، نہ کسی گرے مارکیٹ کی ضرورت، نہ کسی تیسرے ملک کے پیچیدہ راستوں کا جھنجھٹ، چین کے اندر موجودگی کی یہ گنجائش روسی ڈرون انڈسٹری کو وہ لچک فراہم کر رہی ہے جو مغربی پابندیوں کے دور میں کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔ مغربی میڈیا میں اکثر چین کو روس کا مرکزی فوجی اتحادی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، گویا چین میدان جنگ کیلئے ہر ممکن چیز فراہم کر رہا ہو، لیکن سرگئی اس کی پیچیدگیوں پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کا باضابطہ موقف اور عملی رویہ دو الگ طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ باضابطہ طور پر چین کہتا ہے کہ وہ پابندیوں کا مکمل پاسداری کرتا ہے اور فوجی مصنوعات کی برآمد روکتا ہے۔ اس موقف کے کچھ عملی مظاہر بھی موجود ہیں، روسی بینک کارڈز کے ذریعے چینی سپلائرز کو ادائیگی ممکن نہیں رہتی، بعض مصنوعات کی براہ راست درآمد بھی بند ہے، اور بھاری ڈرونز میں استعمال ہونے والے 700 واٹ سے زیادہ کے موٹروں کی برآمد تک پر پابندی ہے۔ لیکن اس رسمی رویے کے پیچھے ایک غیر رسمی دنیا بھی چل رہی ہوتی ہے۔ روس اور چین کے درمیان طویل زمینی سرحد موجود ہے، اور اس سرحد کے آر پار بے شمار نجی چینی کمپنیاں سرگرم عمل ہیں جو لین دین، شپمنٹ اور پرزہ جات کی ترسیل کو منظم کرتی ہیں۔ سرگئی بڑی صفائی سے کہتے ہیں کہ چین جیسے منظم اور کنٹرول پسند ملک میں ان سرگرمیوں سے حکومتی ادارے لاعلم نہیں ہو سکتے ہیں، اس پورے غیر رسمی نظام کو برداشت کرنا یا اس پر خاموشی اختیار کرنا دراصل چین کی خاموش منظوری یا دانستہ چشم پوشی کا عکاس ہے۔ سرگئی کے زبان میں اگر چینی حکام واقعی چاہتے تو اس پورے سلسلے کو ایک لمحے میں روک سکتے ہیں اور کوئی بھی اس کے خلاف کچھ نہ کرپاتا لیکن وہ اس طرح نہیں کرتا ہے۔

جس وقت انٹرویو ہو رہی ہے اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات چل رہے ہیں البتہ ان میں ناکامی اور کامیابی دونوں کی گنجائش موجود ہے لیکن سرگئی کیلئے یہ معنی نہیں رکھتا، ان کے بقول اگرچہ اس وقت امن مذاکرات ہو رہے ہیں اور جنگ کا گرم مرحلہ ختم ہونے کا امکان ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈرونز کی تیاری رکنے والی نہیں ہے۔ ان کے مطابق آنے والی ہر جنگ میں ڈرونز مرکزی کردار ادا کریں گے۔ اعداد و شمار کے مطابق جنگ کے ابتدائی مراحل میں زیادہ تر ہلاکتیں توپ خانے اور شیلنگ سے ہو رہی تھیِ لیکن اب تقریباً جنگ کا 70 فیصد جانی نقصانات ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہو رہے ہیں۔ اگر ڈرونز کو پریسجن گائیڈیڈ ویپنز (سمارٹ ہتھیاروں) کی ارتقائی کڑی سمجھا جائے تو ان کا کردار بلکل فطری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عسکری ٹیکنالوجی کی سمت یہی رہی ہے کہ اندھا دھند گولہ باری کی جگہ درست نشانہ بازی کی جائے۔

اس کی کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی کاپر ہیڈ شیل، روسی کریسوناپول گائیڈیڈ آرٹلری راؤنڈز، اینٹی ٹینک میزائلز، فضائی بمباری کے جدید خودکار نظام، یہاں تک کہ آج کے فضائی ڈاگ فائٹس میں بھی پائلٹ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر ریڈار کے بلیسپس پر گولہ باری کرتے ہیں۔ ان تمام خودکار نظاموں کے تسلسل میں ڈرونز ایک قدرتی اگلا مرحلہ ہے۔ تاہم ان کے مطابق موجودہ جنگ میں جو ڈرون استعمال ہو رہے ہیں، وہ درحقیقت کھلونے کے برابر ہیں۔ ان میں زیادہ تر چینی پرزہ جات، سستے فلائٹ کنٹرولر، اور ٹوائے گریڈ موٹرز نصب ہیں۔ میدان جنگ میں ان کو مجبوری کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہتھیار مہیا کیے جا سکے۔ اگرچہ ان کی کمزوریوں کو جانتے ہوئے بھی۔ سرگئی کے خیال میں مستقبل میں صورتحال بدل جائے گی۔ جنگ کے بعد سب سے پہلا مرحلہ ان ڈرونز کی مکمل ازسرنو ڈیزائننگ کا ہوگا تاکہ یہ ملٹری گریڈ بن سکے۔ یعنی وہ سامان جو ٹرک سے پھینک کر کیچڑ میں گرا دیا جائے، بارش میں ہفتوں پڑا رہے اور پھر بھی بغیر کسی خرابی کے کام کرے۔ کوئی بھی فوج کبھی ایسے پرزے باضابطہ طور پر قبول نہیں کرے گی جو کھلونا مارکیٹ کی پیداور لگیں۔

وہ واضح کرتے ہیں کہ آگے چل کر خودکار ٹارگٹ ریکگنشین اور گائیڈنس میں زبردست پیش رفت ہوگی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانک وارفئیر اس وقت ڈرونز کیلئے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ اگر ڈرون کو مکمل طور پر دستی طور پر ہدف تک لے جانا پڑے تو جمنگ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر ڈرون مکمل طور پر خودکار ہو تو کوئی بھی شخص، یہاں تک کہ سرگئی کے الفاظ میں بندر بھی آسانی سے صرف ایک بٹن دبا کر اس کا آپریٹر بن سکتا ہے۔ امریکی دفاعی انڈسٹری اسی سمت میں تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ ان کے بیشتر نئے دفاعی پروگرام نام نہاد اے آئی ماڈیولز پر مبنی ہیں۔ یہ حقیقی مصنوعی ذہانت نہیں بلکہ زیادہ تر مارکیٹنگ ہے۔ البتہ بنیادی ویژول ریکگنیشن سسٹمز پہلے ہی موجود ہیں۔ سرگئی کے مطابق اگر اخلاقیات اور قوانین کو ایک طرف رکھ کر صرف ٹیکنالوجی دیکھی جائے تو مسئلہ یہ ہے کہ جو کمپیوٹنگ پاور چیٹ جی پی ٹی جیسے سسٹمز چلاتی ہے وہ بڑے سرور فارموں میں موجود ہوتی ہے۔ اس سطح کی کمپیوٹنگ کو ایک چھوٹے، ون وے مشن پر جانے والے سستے ڈرون میں ڈالنا بہت مشکل ہے۔ ڈرون چونکہ استعمال کے بعد ضائع ہو جاتا ہے، اس میں مہنگا ہارڈوئیر لگانا مشکل فیصلہ ہے۔ تاہم Nvidia جیسے ادارے جو نئے چپس لا رہے ہیں، ان سے یہ فرق کم ہوتا جا رہا ہے اور اب ایسے سستے ڈرون بننے کے قریب ہیں جو خود فیصلے کر سکیں۔

دونوں اطراف نے ڈرونز کو محض اڑتے بم بنائے رکھنے پر اکتفا نہیں کیا اب انہیں دور دراز مائن بچھانے کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے ہزار ڈرونز کی تیاری بڑی بات تھی، اب ایک فیکٹری ہفتے میں چالیس ہزار تیار کر لیتی ہے۔ اس نئی حکمت عملی میں راستوں پر دوبارہ مائن بچھا دی جاتی ہے جہاں سے سپلائی ٹرک پہلے گزر چکے ہوتے ہیں۔ واپسی پر وہ دوبارہ انہیں بارودی سرنگوں سے تباہ ہو جاتے ہیں۔ دفاع کیلئے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ اب قدیم کالٹراپس استعمال کر رہے ہیں، جو رومن زمانے کے اسپائکس تھے۔ آج انہیں ریبار سے بنایا جا رہا ہے۔ یہ سستے ہیں مگر ننگے فوجی ٹرکوں کے ٹائروں کو برباد کر دیتے ہیں۔ یہ تکنیک سب سے پہلے یوکرینیوں نے استعمال کیا، وہ ڈرون کو جان بوجھ کر گرنے کی اداکاری کرواتے، تاکہ دشمن کے فوجی اسے اٹھانے آئیں۔ وہ فوجی سوچتے کہ یہ اچھی حالت میں بچ گیا ہے، پرزے نکالنے کے قابل ہیں، یا اسے ری پروگرام کرکے واپس دشمن پر چھوڑا جا سکتا ہے، جیسے ہی وہ قریب آتے، دور بیٹھا آپریٹر اسے اڑا دیتا۔

کبھی ڈرون پہاڑیوں یا چھتوں پر رکھے جاتے جو گزرنے والے قافلوں پر نظر رکھتے۔ جیسے ہی قافلہ آتا، ڈرون حرکت کرتا اور چند میٹر کی دوری سے نشانہ بناتا۔ یہ سارا عمل فائبر آپٹک ڈرونز کی آمد سے اور بھی موثر ہو گیا ہے کیونکہ ان میں بجلی کی کھپت نہایت کم ہوتی ہے۔ جب ویڈیو سگنل فائبر کے ذریعے جاتا ہے تو ڈرون ہفتوں تک بغیر ظاہر ہوئے انتظار کر سکتا ہے۔ جیسے ہی گاڑی آتی ہے، ڈرون صرف دس پندرہ میٹر سے حملہ کرتا ہے اور ڈرائیور کے پاس ردعمل کا وقت نہیں ہوتا ہے۔

سرگئی کے مطابق کورسک میں یوکرین کو حالیہ دنوں شدید شکست کا سامنا ہوئی، جس میں فائبر آپٹک گائیڈنس والے ڈرونز نے بڑا کردار ادا کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں ان کا استعمال ہوا۔ اب یوکرینیوں نے بھی فائبر آپٹک حاصل کر لیے ہیں۔ تاحال ان کے خلاف کوئی موثر جوابی ہتھیار موجود نہیں ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ یوکرنی فوج فائبر آپٹک کیبل پر لیزر مار کر نہ صرف کیبل بلکہ آپریٹر کو بھی تلاش کر لیتی ہے، لیکن عملی طور پر لیزرز اس سطح تک موثر نہیں ہو سکتے ہیں۔ فائبر آپٹک کیبل میں کچھ تکنیکی کمزوریاں ضروری ہیں جیسے کہ یہ سورج کی روشنی میں مکڑی کے جال کی طرح چمکتی ہے اور اگر صبح یا شام کے وقت Mavic جیسے ڈرون سے نیچے دیکھا جائے تو کیبل کی جھلک دکھ سکتی ہے۔ لیکن روسی آپریٹرز نے اس کا حل نکال لیا ہے۔ ایک عام کارلیس ڈرل سے کیبل لپیٹ کر کھینچ لیتے ہیں یوں پچاس سو میٹرک کی کیبل کھینچ کر اپنی پوزیشن چھپا لیتے ہیں۔ وہ فائبر آپٹک ڈرونز کے دو نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلا کیبل زمین پر رہ جاتی ہے، جسے فالو کرکے دشمن مقام تک پہنچ سکتا ہے، اس کے علاوہ میدان میں پھیلی کیبلز فزیکل رکاوٹ بھی بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب روسی فورسز تیزی سے حرکت کیلئے موٹر سائیکلیں استعمال کر رہی ہوتی ہیں۔ دوسرا نقصان پیلوڈ کا ہوتا ہے۔ ڈرون کو کیبل کے بڑے ریل اٹھانے پڑتے ہیں، مثلاً 10 کلومیٹر کی ریل خاصا وزن ڈال دیتی ہے، اور بمشکل 500 گرام دھماکہ خیز مواد کیلئے بچتا ہے۔

یہ کوئی جادوئی ہتھیار نہیں ہیں لیکن مخصوص حالات میں انتہائی مؤثر رہتے ہیں خاص کر جب دشمن کی الیکٹرانک وارفیئر بہت طاقت ور ہو۔ کورسک میں یوکرین نے بڑے پیمانے پر جامنگ آلات سے پورے سپیکٹرم کو جام کر دیا تھا۔ روسی فائبر آپٹک ڈرونز پہلے یوکرینی قافلوں کے ساتھ چلنے والی جامنگ گاڑیوں کو نشانہ بناتے تاکہ الیکٹرانک وارفئیر ناکارہ ہو جائے اس کے بعد وہ عام FPV ڈرونز بقیہ قافلے کو نشانہ بناتا۔ جنگ کے میدان میں ایجادات کا سائیکل اس وقت انتہائی مختصر ہے، کبھی کبھار صرف دو ماہ میں کوئی نئی حکمت عملی پرانی ہو جاتی ہے اس لیے فائبر آپٹک ڈرونز کو محض ایک آلہ سمجھنا چاہیے ان کا اصل کام دشمن کی جامنگ کو صاف کرنا ہے تاکہ روایتی ایف پی وی ڈرونز موثر طریقے سے حملہ کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

سرگئی کے بقول روس کو جو Orbit System ہے وہ درحقیقت تکنیکی طور پر کوئی انقلابی چیز نہیں ہے بلکہ یوکرینیوں کی پرانی حکمت عملی کی ایک نقل کے حساب میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یوکرین نے شروع سے اسٹارلنک استعمال کیا جو کہ اس جنگ میں مغربی ٹیکنالوجی کی سب سے کامیاب پروڈکٹ ثابت ہوئی ہے۔ اگر یوکرین سے اسٹارلنک نکال دیا جائے تو ان کے نیول ڈرون فورس کا پورا نظام بیٹھ جائے گی کیونکہ وہ بنیادی طور پر اسٹارلنک ٹرمینل، ایک چھوٹا موٹر اور دھماکہ خیز مواد لے کر چلنے والی کشتتیاں ہیں۔ روس کے پاس بھی ایسی کشتیاں موجود ہوتی ہیں مگر ان کے پاس اسٹارلنک نہیں ہے اور یہ ساری کہانی کمیونیکینشز کے گرد گھومتی ہے۔

سرگئی کے بقول روس نے اس کا حل اس طرح نکالا کہ فرنٹ لائن کے قریب ایک تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن قائم کیا جائے اور وہاں سے ریڈیو کے ذریعے ڈرون سے رابطہ کیا جائے تاکہ ڈرون آپریٹر کو فرنٹ پر بھیجنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ایک تربیت یافتہ ڈرون آپریٹر بہت قیمتی ہوتا ہے کیونکہ اسے تیار کرنے میں کئی مہینے یا سال لگ جاتے ہیں اور زیادہ تر ڈرون آپریٹر ویسے بھی گیمرز ہوتے ہیں جو جنگی لباس اور فرنٹ لائن کی سکتیوں کے عادی نہیں ہوتے۔ روسی حل میں دو مضبوط آدمی صرف لانچنگ ٹیم کا کام کرتے ہیں، وہ آسانی سے لیبل شدہ کیبلز جوڑ کر سسٹم سیٹ کرتے ہیں، ڈرون کو اینٹوں پر رکھ کر ایک بٹن دباتے ہیں اور ریڈیو پر تیار کی اصلاح دیتے ہیں۔ اس کے بعد ماسکو میں بیٹھا تربیت یافتہ آپریٹر کنٹرول سنبھال لیتا ہے اور اپنے محفوظ مقام سے ڈرون اڑاتا ہے۔ یہ نظام آپریٹرز کو لگاتار وسیع محاذ پر بغیر خطرے کے مشن چلانے کی سہولت دیتا ہے۔ اگرچہ روس اب اس ٹیکنالوجی میں یوکرین کے قریب آ چکا ہے لیکن کچھ مسائل بدستور موجود ہیں جیسے کنٹرول اور ویڈیو فیڈ میں تاخیر، جو اسٹارلنک میں بھی ایک حد تک رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حکمت عملی ابھی مکمل طور پر عام نہیں ہو پائی ہے۔

سرگئی کے بقول کہ یوکرینی ڈرون Vampire جسے روس میں Baba Yaga کہا جاتا ہے، دراصل زرعی ڈرون ہے جسے بم گرانے اور مائن بچھانے کیلئے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔ شروع میں روسی فوج نے ان ڈرونز کو سنجیدہ جنگی ہتھیار نہیں سمجھا اور روایتی ایئر کرافٹ اور گائیڈڈ بمز کو کافی سمجھا، لیکن عملی تجربے نے ان کی سوچ غلط ثابت کر دی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل یوکرینیوں نے ان ڈرونز کو اینٹی ٹینک مائنز گرانے کے قابل بنایا، جن میں 6 سے 8 کلوگرام ٹی این ٹی ہوتا ہے۔ یہ مائنز اتنی طاقت ور ہوتی ہیں کہ خندقوں اور مورچوں میں چھپے فوجی بھی جھٹکا محسوس کرتے ہیں اور اگر کوئی کھلے میں ہو تو زندہ بچنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ان ڈرونز کے ذریعے ایک ایک کرکے پورے مورچے تباہ کیے جا سکتے ہیں۔ زیادہ تر Vampire ڈرون پری پروگرامڈ ہوتے ہیں جو مقررہ راستے پر جاکر اپنا دھماکہ خیز مواد گرا کر واپس آ جاتے ہیں۔ کچھ ورژنز Starlink کے ذریعے زیادہ اسمارٹ بنائے گئے ہیں جو دشمن کی فائرنگ کی سمت شناخت کرکے اسی پوزیشن پر مائن کرا دیتے ہیں مگر یہ کم استعمال ہوتے ہیں۔ ان ڈرون کو گرانا ممکن ہے بشرطیکہ تھرمل اسکوپ کے ساتھ مشین گن موجود ہو۔ ڈرون کی بیٹری اور موٹر گرم ہوتی ہے اور انفرا ریڈ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ ایک درست گولی سے بیٹری نشانہ بن جائے تو ڈرون گرتا ہے اسی وجہ سے اب یہ اکثر مار گرائے جاتے ہیں۔ روس نے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے دو بڑی فیکٹریاں تعمیر کی ہیں جو چین سے حاصل کردہ پرزہ جات سے Vampire جیسے بھاری ڈرون تیار کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے پیمانے پر گیراج میں کام کرنے والے انفرادی ڈرون ساز بھی متحرک ہیں۔ ویمفائر ڈرون مہنگے ہوتے ہیں ان کی قیمت، دس ہزار سے 30000 ہزار ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔ عام فوجی کیلئے ان کی خرید لگ بھگ نا ممکن ہوتی ہے اس لیے یہ فوجی اداروں کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں اس کے برعکس FVP ڈرونز سستے ہوتے ہیں جو تقریباً 500 ڈالر میں دستیاب ہیں اور اکثر فوجی اپنی ذاتی رقم سے خرید لیتے ہیں تاکہ ہنگامی حالات میں اچانک دشمن حملہ کرے تو دفاع کیلئے کچھ تو موجود ہونی چاہیے۔

روس کے جو Jiren ڈرونز ہیں، وہ اب کافی درو نکل چکے ہیں، اپنی ایرانی اصل یعنی Shahed ڈرون سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ اس میں تو یہاں تک کہ اسٹیلتھ کوٹنگ بھی نہیں تھی، یعنی وہ ریڈار پر آسانی سے پکڑے جا سکتے تھے۔ لیکن روسی Jiren اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ان میں اسٹیلتھ کوٹنگ موجود ہے اور یہ صرف ایک مثال ہے کہ اس پلیٹ فارم سے کتنا سفر طے کر لیا گیا ہے۔ اس وقت Jiren ڈرون اپنے ایرانی ماڈل سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ جب یوکرینی آج بھی ان ڈرونز کو Shahed کہہ کر پکارتے ہیں تو وہ دراصل غلط کہہ رہے ہوتے ہیں، اب یہ Shahed نہیں ہیں وہ لیبل تو کب کا غیر متعلق ہو چکا ہے۔ روس کی حکت عملی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ کسی اور کے بنیادی ماڈل سے آغاز کیا جائے، لیکن پھر اس میں تیز رفتاری سے بہتری لائی جائے اور اسے آزادنہ طور پر مزید آگے بڑھایا جائے۔ مثال کے طور پر اب Jiren کا ایک جیٹ پاورڈ ورژن بھی موجود ہے۔ حالانکہ جن ویڈیوز کا حوالہ دیا جا رہا ہے، ان میں جو ڈرون دکھائی دے رہے ہیں وہ شاید یہ جیٹ ورژن نہیں ہیں، ساتھ ہی ساتھ ایک اور قسم بھی تیار کی گئی ہے کہ جس میں وینکل انجن استعمال ہو رہا ہے، یہی انجن ہے جو ڈرون کی اس مخصوص اور بلند فریکوئنسی والی آواز کو پیدا کرتا ہے جسے اکثر لوگ پہچاننے لگے ہیں۔

ایک اور نظریہ بھی گردش میں ہے کہ شاید جو نئی قسم استعمال ہو رہی ہے اس میں ڈرون کے اندر باقاعدہ ایک سرین نصب کی گئی ہے بالکل ویسے ہی جیسے پرانے جرمن Junkers طیاروں میں آواز پیدا کرنے والے آلات لگائے جاتے تھے، جن کا مقصد دشمن کے حوصلے پر نفسیاتی حملہ کرنا ہوتا تھا۔ اور واقعی یہی مقصد کسی بھی ہتھیار کا ہوتا ہے کہ وہ دشمن کو نفسیاتی طور پر ہلا دے اور اس پر دھاک بٹھا دے۔ امریکیوں نے ایک بات بڑی درست کہی تھی کہ جنگ دراصل تشدد کا دوسرا نام ہے، اور جنگ میں کسی قسم کی نرمی دراصل حماقت ہوتی ہے۔ اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور موجود رہتی ہے۔ مگر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یوکرین کے ساتھ یہ جو تنازع ہے یہ پچھلے سو سال میں شاید پہلا ایسا تنازع ہے جہاں فوجی ہلاکتیں شہری ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صفایا کرنے کی جنگ ہے تو وہ درست نہیں کہتے ہیں، اگر ویتنام کی مثال لیں تو وہاں شہری ہلاکتیں فوجی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ تھیں، مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے، کوئی منظم مہم نہیں چل رہی کہ یوکرینی شہریوں کو نشانہ بنایا جائے، اعداد و شمار بھی یہی دکھاتے ہیں۔

باکسنگ کی اصلاح میں اگر بیان کریں تو روسی طرف سے یہ جنگ گویا دستانے پہن کر لڑی جا رہی ہے۔ یوکرینی تو پوری قوت جھونک رہے ہیں لیکن ہم نے ابھی بھی کئی حوالوں سے اپنے آپ کو روکا ہوا ہے، روس میں ایک بڑا ذہنی تغیر پہلے ہی آ چکا ہے، بڑی تعداد میں اب لوگ سمجھ چکے ہیں کہ ہم ایک جنگ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کے ساتھ جینا سیکھ چکے ہیں، چاہے جنگ کی شدت کم ہو یا یہ لڑائی روس کے شہروں سے دور ہو رہی ہو، اب کسی کو یہ دھوکہ نہیں کہ جنگ کہیں اور ہو رہی ہے اور وہ جنگ سے دور ہیں یہ وہم اب ختم ہو چکا ہے۔

اس کا ایک عجیب طرح کا فائدہ بھی ہے کہ روسی اور یوکرینی عوام دونوں اب ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر تیار ہیں، یہ حالات مغرب اور یورپ کے لوگوں کے برعکس ہے جہاں زندگی اب بھی معمول کے مطابق اور پرسکون محسوس ہوتی ہے۔ یورپیوں کو اس جنگ کا بوجھ اس طرح محسوس نہیں ہو رہا ہے مگر روس میں لوگ اس کیلئے ہر سطح پر تیار نظر آتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے یا بری یہ ایک الگ بحث ہو سکتی ہے۔ روسی حکومت بھی ایک خاص حد تک توازن رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، کھلے عام دشمن کے مکمل صفائے کی باتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ یہ حد تک ہو گیا ہے کہ کبھی کبھی یہ رویہ مزاحیہ محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ ایک گروپ نے ایک ڈرون بنایا تھا جسے انہوں نے Pig Slicer یعنی سور کا قیمہ بنانے والا نام دیا تھا، مگر فوج نے کہا کہ نہیں، ہم ایسا نام قبول نہیں کرینگے۔ نام بدلو، چنانچہ انہوں نے اسے کوئی زیادہ غیر جانبدار سا نام دے کر پچھلا نام تبدیل کر دیا۔ حکام واضح طور پر اندھی نفرت کے فروغ سے بچنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ یہ بلکل ویسے ہے جیسے سویت یونین اور بعد میں روس نے جرمنوں کے بارے میں طویل عرصے تک عوام کو سکھایا کہ ہم نے نازیوں کو شکست دی ہے، جرمن قوم کو نہیں، نازی ایک الگ چیز تھے اور عام جرمن الگ چیز ہیں۔ یہ پیغام لوگوں کے ذہنوں میں گہرا بٹھایا گیا تھا۔ مگر جب جرمنی نے یوکرین کو لیپرڈ ٹینک بھیجے، تو گویا ستر سال کا سارا سکھایا ہوا سبق مٹ گیا۔ اب محاذوں پر جرمنوں کے بارے میں جذبات انتہائی منفی ہیں۔
یہی حال پولینڈ کیلئے بھی موجود ہے۔ امریکیوں کو تو قیدی بنایا جاتا ہے مگر اگر آپ پولش یا جرمن ہیں تو قیدی بننے کی امید نہ رکھیں۔ یوکرینیوں کیلئے سوچ مختلف ہے۔ لوگ اب بھی انہیں کسی حد تک بھائی سمجھتے ہیں، گمراہ ضرور، پروپیگنڈے کے زیر اثر اور خراب نظریات میں جھکڑے ہوئے، مگر پھر بھی ہمارے اپنے ہی ہیں لیکن جو کرائے کے فوجی آتے ہیں، ان کیلئے جذبات بالکل مختلف ہیں۔ وہ ایک خود سے یہاں آتے ہیں کوئی انہیں بلاتا نہیں، کوئی دھمکی نہیں دیتا یہ خود چل کر آتے ہیں۔ اس لیے ان کیلے نفرت کہیں زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب بات جرمن ساز و سامان کی ہو، کسی جرمن ٹینک یا گاڑی کو تباہ کرنا اب ہر روسی سپاہی کیلئے گویا ذاتی کامیابی اور خاندانی وراثت کا حص بن چکا ہے۔

صنعتی سطح کے ڈرون ڈیفنس سسٹم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں ک ابھی کافی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے کہ لیزر ٹیکنالوجی اگلا بڑا انقلاب ہوگا، یعنی یہ ڈرونز کو بڑی موثر طریقے سے گرا سکتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ لیزر کم از کم ابھی کیلئے تو ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ فضا میں نمی بھری ہوئی ہوتی ہے جبکہ طاقت ور لیزر اس نمی پر پڑتا ہے تو وہ پانی بخارات میں بدلنے لگتا ہے، یعنی بھاپ کا بادل بننے لگتا ہے، نتیجہ یہ کہ لیزر خود کو اندھا کر دیتا ہے۔ اسی لیے آپ اسرائیلی اور امریکی لیزر کے مظاہرے ہمیشہ مثالی حالات میں دیکھتے ہیں، خشک موسم، کنٹرولڈ ماحول، ہاں، وہاں یہ ٹیکنالوجی کام کرتی ہے لیکن میدان جنگ میں ایسی سہولت کہاں میسر آتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ لیزر کی بڑے پیمانے پر عملیات ہمیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ البتہ قریبی فاصلے پر یعنی تقریباً 150 میٹر تک لیزر خاصے موثر ہو سکتے ہیں۔ اس فاصلے پر فضا ابھی اتنی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی کہ بیم متاثر ہو اور مشین گن کے برعکس لیزر کو دوبارہ لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب تک بیٹری میں توانائی ہے، یہ مسلسل فائر کرتا رہتا ہے۔ بغیر آرمور والے اہداف، جیسے ڈرونز کے خلاف، لیزر زبردست ہتھیار بن جاتا ہے۔ یہ ڈرونز کے کیمرے کو اندھا کر سکتا ہے، اندرونی تاریں جلا سکتا ہے، بیٹری میں آگ لگا سکتا ہے۔ ایک 500 واٹ کا لیزر اس کام کیلئے شاندار ہتھیار ہے۔ اس وقت روس اور یوکرین دونوں اسی قسم کے قریبی فاصلے والے لیزر سسٹمز پر سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک انفرادی سپاہی کی بات ہے وہاں اصل حل ایک ہی ہے کہ دوڑو، آپ کوئی جادوئی حل ایجاد نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ جو بیگ پیک جیمر والی تھیور ہے وہ بالکل فضول ہے، ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی فریکوئنسی بچ ہی جاتی ہے جو جیمر کور نہیں کر سکتا ہے۔ آپ نے ایک بڑا بیگ پیک پہن لیا جس میں 20 اینٹینے لگے ہیں۔ پھر ایک ڈرون آپ کی طرف آتا ہے، اب آپ سے توقع ہے کہ آپ فوراً اندازہ لگائیں کہ ڈرون کس فریکوئنسی پر ہے اور ہیوی جیممر آن کریں۔ جو اصل میں ہوتا ہے وہ یہ کہ بندہ گھبرا جاتا ہے اور سارے جیمر بیک وقت آن کر دیتا ہے اور اس سے آپ نے درحقیقت دشمن کو بتا دیا کہ یہ رہے ہمارے جیمنگ سگنلز اور پھر دشمن فوراً ایسے ڈرون بھیجتا ہے جو کسی دوسری فریکوئنسی پر ٹیون کیے ہوتے ہیں جو آپ کے بیگ پیک جیمر کو بائی پاس کر دیتے ہیں اور سیدھا اس سپاہی کو ہٹ کر دیتے ہیں جو لاکھوں روپے کا جیمر اٹھائے کھڑا ہے۔ لہٰذا یہ کسی تعویز یا گڈ لک چارم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا زیادہ تر اثر نفسیاتی ہے۔

انفینٹری کیلئے اب بھی سب سے بہترین دفاع یہی ہے کہ چالاکی سے حرکت کرو اور دشمن کی نظروں سے آنے سے بچ جاؤ۔ تیز چلیں، ناقابل پیشگوئی بنیں، درختوں کے نیچے رہیں، جھاڑیوں میں چھپیں، ایسی جگہوں پر رہیں جہاں ڈرون کا پروپیلر کسی شاخ سے الجھ کر پھنس سکتا ہے یا اس کے کانٹیکٹ فیوز کسی شاخ سے ٹکرا کر پہلے ہی دھماکے سے پھٹ سکتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو عملی میدان میں واقعی کام کرتی ہے۔

ڈرون کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں سرگئی کہتے ہیں کہ مستقبل کے دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد ہم جیسے نجی شعبے کے ڈویلپرز کو بھلا دیا جائے گا، ڈرون ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ دوبارہ سرکاری اداروں کے حوالے کر دی جائے گی، یہ وہ کمپنیاں ہیں جو پہلے سے سبسڈی پر پل رہی ہیں۔ ان کے ملازمین کو ہر حال میں تنخواہ ملتی رہتی ہے، چاہے کچھ ہو یا نہ ہو۔ وہ آرام سے کچھ بنائیں گے، شاید 2030 تک ایک نیا FVP ڈرون پیش کریں گے، پھر طویل عرصے تک مشقوں میں اس کی جانچ ہوگی، یہ سرکاری راستہ ہے۔

سرگئی کے بقول روسی اور امریکی ملٹری ایکسرسائز میں کافی فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روس کی مشقوں میں روس ہمیشہ جیتتا ہے۔ امریکیوں کی مشقوں میں ایسا نہیں ہوتا، وہ خود کبھی کبھار ہی جیت جاتے ہیں۔ یوکرین جنگ سے پہلے نیٹو ایکسرسائز ہوئی تھی، جس میں امریکیوں نے روسی کردار ادا کیا اور باقی نیٹو نے نیٹو کا کردار نبھایا۔ امریکیوں نے نیٹو کو بری طرح کچل دیا۔ خاص طور پر اطالوی فوجیوں کو، وہ صبح قہوہ بناتے رہے، دھوئیں سے اپنی پوزیشن کا پتہ دے دیا اور صفایا کرا بیٹھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی اپنی کمزوریوں کو بہتر پہچانتے ہیں۔ روس میں تو کمزوریاں اصل جنگ میں جا کے ہی سامنے آتی ہیں۔

اب دوسرا راستہ جو میں امید کرتا ہوں کہ ہم اختیار کرینگے، یہ ہے کہ روس اس تمام تجربے سے سبق سیکھے گا۔ ہم آخرکار یہ بات سمجھ لیں کہ مغرب کے دفاعی ادارے کیسے کام کرتے ہیں، وہاں نجی کمپنیاں ترقی کی محرک ہوتی ہیں۔ نجی کمپنیاں زیادہ تیز کام کرتی ہیں، زیادہ متحرک ہوتی ہیں، مارکیٹ میں خلا کو فوراً پہچان لیتی ہیں اور تیز رفتاری سے نئی ٹیکنالوجی تیار کر لیتی ہیں۔ ان بڑے سست سرکاری اداروں کے مقابلے، چاہے سرکاری اداروں میں بھی قابل اور ذہین لوگ ہی کیوں نہ ہوں، اور میں مذاق نہیں کر رہا، روسی ڈیفنس سیکٹر میں واقعی زبردست لوگ ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ محدود وسائل میں کیا کچھ کر سکتے ہیں، وہ حیرت انگریز صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر ابھی تو وہ ایڈرینالین پر چل رہے ہیں، جنگی دباؤ کے زور پر چل رہے ہیں جنگ ختم ہوتے ہی یہ لوگ آرام کرنے لگیں گے، میڈل لیں گے، طویل چھٹیوں پر نکل جائیں گے، اور سب کچھ سست روی کا شکار ہو جائے گا، جب تک کہ حکومت خود آگے بڑھ کر اس ماڈل کو تبدیل کرنے کا فیصلہ نہ کرے، ورنہ پھر جدت رک جائے گی۔

جہاں تک میری اپنی بات ہے، میں تو خیر کسی نہ کسی طرح بچ جاؤں گا۔ سول شعبے میں اب بھی روس میں بے تحاشا الیکٹرانکس کا کام پڑا ہوا ہے، مغربی کمپنیاں جا چکی ہیں اور اچھا ہوا۔ ہم ان کی جگہ خود کو لے رہے ہیں، ہر شعبے میں اور ہم آگے بڑھتے رہیں گے لہذا میں تو خیر بچ جاؤں گا، ترقی بھی کر لوں گا مگر دل یہی چاہتا ہے کہ میں وہی کرتا رہوں جو آج کر رہا ہوں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ یہ واقعی اہم ہے۔

نوٹ: یہ انٹرویو Real Reporter یوٹیوب چینل کی جانب سے منعقد کی گئی ہے، آپ تفصیلی انٹرویو چینل میں جاکر دیکھ سکتے ہیں، یہاں انٹرویو کا مکمل خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ہم ڈرون وارفئیر کے حالیہ نتائج اور حقیقت کو سمجھ سکے۔