اطلاعات کے مطابق، دو کرد خواتین کارکنان، وریشے مرادی اور پخشان عزیزی، کو ایرانی حکومت نے سیاسی سرگرمیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر سزائے موت سنائی ہے۔
یہ فیصلہ کرد اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنان اور تنظیموں کے لیے شدید تشویش کا باعث بن رہا ہے، جو ایران میں اقلیتوں کے خلاف حکومتی جبر کے بڑھتے ہوئے واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
وریشے مرادی: خواتین کے حقوق کی رہنما
کردستان میڈیا کے مطابق، وریشے مرادی مشرقی کردستان (روژہلات) میں خواتین کی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ اگست 2023 میں، انہیں سنندج (سنے) کے قریب ایرانی انٹیلیجنس فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔
رپورٹس کے مطابق، انہیں ایک نامعلوم گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
جبری گمشدگی کے دوران، وریشے مرادی پر سنگین الزامات عائد کیے گئے، جن کے نتیجے میں انہیں سزائے موت دی گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس سزا کو غیر منصفانہ اور سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔
پخشان عزیزی: صحافی اور سیاسی کارکن
پخشان عزیزی، جو ایک صحافی اور سرگرم کارکن ہیں، کو ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی بنیاد پر ایرانی حکام نے حراست میں لیا تھا، اطلاعات کے مطابق، حراست کے دوران انہیں سخت تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اور بغیر کسی منصفانہ مقدمے کے، ان پر سزائے موت نافذ کردی گئی۔
کرد سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے یہ واقعات ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے خلاف حکومتی جبر کے بڑھتے ہوئے رجحان کو اجاگر کرتے ہیں۔
کردستان میں ہڑتال کا اعلان
وریشے مرادی اور پخشان عزیزی کی سزائے موت کے خلاف مشرقی کردستان میں 22 جنوری کو عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ چھ کرد سیاسی جماعتوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس احتجاج میں شامل ہوں اور اپنے کاروبار، اسکول، اور دیگر سرگرمیاں معطل رکھیں۔
جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ ہڑتال انسانی حقوق کے تحفظ اور حکومت کی جبری پالیسیوں کے خلاف ایک مضبوط پیغام دے گی۔
اقلیتوں کے خلاف سزائے موت کی پالیسیاں
واضح رہے کہ ایرانی حکومت پہلے بھی کرد، بلوچ، اور دیگر اقلیتوں کو سیاسی و انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہونے پر نشانہ بناتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، سزائے موت پانے والے قیدیوں میں ایک بڑی تعداد اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھتی ہے، جو ایران میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ثبوت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کو ملنے والی رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال 2024 کے پہلے چھ ماہ میں ایران کی جیلوں میں کم از کم 34 بلوچ شہریوں کو پھانسی دی گئی، جن میں سے 27 کو منشیات اور 7 کو قتل کے الزامات میں سزا سنائی گئی۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ایران میں سزائے موت کے فیصلے غیر متناسب طور پر نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف دیے جاتے ہیں، جن میں شمال مغرب میں کرد، جنوب مغرب میں عرب، اور جنوب مشرق میں بلوچ شامل ہیں۔