کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

30

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاج کو آج 5705 دن مکمل ہوگئے، خضدار سے سیاسی و سماجی کارکنان عبداللہ باجوئی، نذیر احمد باجوئی، اور الہی بخش جتک نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیوں نے پورے بلوچ معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں خاندان بے یقینی اور اندھیروں میں دھکیل دیے گئے ہیں، یہ اجتماعی سزا بلوچ عوام کے لیے ایک ایسا زخم بن چکی ہے جو آئندہ کئی دہائیوں تک مندمل ہونا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پاکستانی حکمرانوں کی بلوچ وسائل، زمین، اور سماج پر قبضے کی خواہش کا نتیجہ ہیں کراچی میں ریاستی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے پرامن سیاسی و سماجی کارکنان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں امن کی راہیں بند کرنے سے صرف تشدد کی راہیں کھلتی ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے 24 جنوری 2014 کو توتک میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے 169 لاشیں برآمد ہوئیں، جن میں سے صرف دو افراد کی شناخت ممکن ہوسکی تھی، یہ افراد، نصیر ولد بائیان اور قادر بخش ولد مسکین، آواران کے رہائشی تھے جنہیں پاکستانی فوج نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا ان شواہد کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی قبروں میں پائی جانے والی لاشیں بھی جبری لاپتہ افراد کی تھیں، جنہیں ناقابل شناخت بنانے کے لیے ان پر چونا ڈالا گیا تھا۔

ماما قدیر نے عزم کا اظہار کیا کہ جب تک ایک بھی فرد لاپتہ ہے، اس کی بازیابی کے لیے سوال اٹھائے جاتے رہیں گے اور ریاست کو ان مظالم کا جواب دینا ہوگا۔