یہ قدرتی نہیں بلکہ ریاستی آفت ہے، اپنے لوگوں کی خود مدد کرنی ہوگی – ڈاکٹر ماہ رنگ کا خطاب

487

بلوچ یکجہتی کمیٹی گذشتہ پانچ سے روز سے گوادر شہر و گردنواح میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے وہاں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا اور لوگوں سے اس تکلیف دہ وقت میں اظہار یکجہتی کی۔

ان خیالات کا اظہار بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے آج گوادر کے علاقے جیونی کے دورہ کے موقع پر مظاہرے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ یہاں ہم نے دیکھا کہ گوادر شہر اب بھی ویسے ہی ہے جیسے کہ پہلے زمانوں میں رہا ہے۔ نام نہاد ترقی کے نعرے لگانے والوں نے دروغ گوئی کی، دنیا کے سامنے اسی گوادر شہر کو دکھایا گیا جو سرکار کا شہر ہے۔ جو پورٹ بنایا گیا ہے وہ بلوچ کے واسطے نہیں بلکہ سرکار کیلئے بنائی گئی ہے۔ آج ہمیں درد محسوس ہوتی ہے جب ہم اپنی قوم کی تکالیف، اسکی بے بسی، اس کے پھٹے کپڑوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کیلئے روٹی نہں ہے، ان کے پاس ایک چھت تھا آج وہ بھی ان کے پاس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج یہی منافق رہاست کہتی ہے کہ یہاں تباہی نہیں ہوئی ہے۔ آج سرکار اپنی دروغ گوئی سے اس تباہی کو چھپا رہی ہے کہ یہاں کوئی تباہی نہیں ہے کیونکہ رہاست کو صرف بلوچ کی زمین چاہیے، وہ صرف اور صرف بلوچ قوم کو مارنا چاہتی ہے، اس کے پاس ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔

“یہ ریاست جب سے بنی ہے اس کا کام یہی ہوا ہے۔ اسی وجہ سے جن کے گھر زمین بوس ہوئے آکر ان کی تصاویر نکالتے ہیں کہ ان کو فنڈز مل سکیں۔ یہ سرکار ہماری مدد کرنے نہیں آئے گی، ہمیں خود ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔ اپنی قوم کی خود مدد کرنی ہوگی۔”

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ آپ سرکاری کی بے حسی دیکھے کہ گوادر میں انہوں نے دو شہر بنائے ہیں، ایک شہر ریاست کی اور دوسری بلوچ قوم کی ہے، بلوچ قوم کا شہر بدحال ہے۔ وہ پورٹ جس کی دیوار کے باعث سیلاب آئی، لوگوں کے گھر مسمار ہوئے اُس وقت بھی فوجی اہلکاروں نے آکر پورٹ کی دیوار تھوڑی کہ لوگوں کے گھر سیلاب کی نذر ہو، یہ قدرتی آفت نہیں بلکہ ریاستی آفت ہے۔ یہ آفت ریاست نے لوگوں کے گھروں تک پہنچائی، اُن کے شہروں میں تین تین مہینے بارشیں ہوتی ہے لیکن وہاں سیلاب نہیں آتی ہے لیکن بلوچ کے شہر میں ایک دن کی بارش سے سیلاب آکر تباہی مچاتی ہے جبکہ مذہبی ملاؤں کی جانب سے ہمیں باور کرایا گیا ہے کہ یہ بلوچ کی قسمت ہے لیکن یہ بلوچ قسمت نہیں بلکہ یہ ریاستی عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے زمین کے باسی ہے کہ وہ زمین خود مالا مال ہے، ہمیں دیگر لوگوں کے کمک کی ضرورت نہیں، ہمیں نوکریوں کی ضرورت نہیں۔۔۔ بلوچ ہزاروں سالوں سے اسی سرزمین پر زندگی بسر کرتی رہی ہے لیکن آج وہ دن آگئے ہیں کہ عزت کی روزگار کہ ایک طرف دریا اور دوسری جانب سرحد ہے، اُس روزگار کو بھی ریاست نے بے عزتی کا نام دیا ہے، ایک ٹوکن کیلئے لوگوں کو بے عزت کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ریاست وہ قبضہ گیر ہے جو چاہتی ہے کہ بلوچ اپنے روزگار کیلئے بھی آکر ہمارے پاؤں پکڑے، یہ ہمیں صرف مارنا نہیں چاہتا بلکہ یہ ہمیں بھوک سے بھی مارنا چاہتا ہے۔ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی قسمت کا فیصلہ کیسے کرنا چاہتے ہیں۔”

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اس ریاست نے فوجی آپریشنیں کی، گھر گھر سے نوجوانوں کو اٹھاکر ان کی لاشیں پھینکی، پھر ہمارے درمیان سے لوگوں کو لاکر کھڑا کردیا گیا جنہوں نے ہمیں بھٹکایا کہ بلوچ کا مسئلہ روزگار ہے، بلوچ غریب و بے بس ہے۔ بلوچ غریب و بے بس نہیں بلکہ بلوچ قوم بے بس کیا گیا ہے۔ خون خوار جانوروں نے آکر ہمارے ملک، ہماری زمین پر قبضہ کیا ہے۔ یہ بات آپ کو کوئی نہیں بتائے گا، یہ اپنی ضرورت کے وقت آپ کے دروازوں پر آئینگے لیکن جب بلوچ دربدر ہوتی ہے تو کوئی نہیں آتا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ یہ تباہی یہاں نہیں رکھنے والی بلکہ یہ تباہی آگے بڑھے گی۔ جب تک بلوچ زندہ ہے یہ ریاستی اسی طرح ہم پر مظالم ڈھاتی رہے گی۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس ظلم کیخلاف کیسے کھڑے ہوتے ہیں۔”

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ اپنے لوگوں کی مدد خود کریں، ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئیں، ایک دوسرے کو عزت دیں۔ بلوچ قوم نشے کا شکار ہے اس سے خود کو نکالیں، پڑھیں اور ہر اُس منصوبے گھڑنے والے مفاد پرست ٹولے، جو اپنی مفاد کیلئے بلوچ کو بھٹکانا چاہتا ہے یا ہماری قیمت لگا چاہتا ہے اس کے سامنے کھڑے ہو اور اس کو کہیں کہ یہاں سودا لگانے کیلئے کچھ نہیں، یہاں ایک قوم بستی ہے جو اپنی مستقبل کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے قریب بہت سے لوگ ہے جن کے پاس اب گھر نہیں، روزگار نہیں لیکن یہ گھر و روزگار سب کچھ ریاست نے چھین لی ہے ہمیں اپنے لوگوں کی خود مدد کرنی ہے ان کے پاس جاکر ان کی ضروریات پوری کرنی ہے اور بلوچ قومی جدوجہد سے منسلک ہونا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریاست و اسکی پارلیمنٹ ایک سرکس بن چکے ہیں۔ اس پارلیمنٹ میں تماشے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بلوچ کی پارلیمنٹ آپ بلوچ قوم ہو کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ بلوچ قوم کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں یہاں کس کی حکومت ہے، ان حکومت کرنے والوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں کہ بلوچ قوم کے وسائل سے لیکر افراد تمہارے واسطے نہیں کہ تم اسکی سوداگری کرو۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ انہوں نے ہمارے پھینکے گئے لاشوں تک کا سودا کیا، انہوں نے کہاں کہ چھوڑو لاشیں سڑتی رہیں پھر ہم اپنا سوداگری کرسکیں گے۔ یہ سوداگر ریاست ہے، جب تک ہماری شناخت ختم نہیں کرینگے اسی طرح اپنا عمل جاری رکھیں گی۔