دکی چھت گرنے سے پانچ کانکن جانبحق

134

کمرے کا چھت گرنے سے کمرے میں موجود افراد ملبے تلے دب کر ہلاک ہوگئے۔

بلوچستان کے علاقے دکی مہراج میں کوئلہ کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے کمرے کی چھت گرنے سے پانچ مزدور ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہارگئے، جبکہ ملبے تلے لاشوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

جانبحق ہونے والے کانکنوں کا تعلق بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہے، لاشوں کو اسپتال منتقل کرنے کے بعد لواحقین کے حوالے کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں 17 کانکن جانبحق ہوئے ہیں اس سے ایک ہفتہ قبل بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے علاقے زردآلو کی کوئلہ کان میں میں گیس بھرنے جانے کے صورت میں دھماکے کے نتیجے میں اٹھارہ کان کن کوئلہ کان کے اندر پھنس گئے تھیں جن میں 12 کانکن جان کی بازی ہارگئے تھیں۔

بلوچستان میں درجنوں کوئلہ کانکنی کے پروجیکٹس کام کررہے ہیں جن میں ہزاروں مزدور جن کا تعلق بلوچستان سمیت دیگر شہروں سے ہے، مختلف اوقات میں ان حادثات کا شکار رہیں جبکہ آئے روز کان حادثوں میں متعدد کانکن اپنی جان کی بازی بھی ہارگئے ہیں-

ان کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدور یونینز، و مزدوروں کے حقوق کی تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں ان حادثات کی وجہ ناقص سہولیات اور مزدوروں کو فراہم کردہ غیر معیاری مواد کو قرار دیتے ہیں-

اسی طرح گذشتہ سال بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں ہونے والے 51 حادثات میں 69 کان کن لقمہ اجل بنے جبکہ 29 زخمی ہوئے تھیں۔
‎محکمہ معدنیات کے حکام کے مطابق بلوچستان کے علاقوں مچ ،دکی ،شاہرگ ،چمالانگ اور کوئٹہ کی کوئلہ کانوں میں ہونے والے 51 حادثات میں 69 کان کن جاں بحق جبکہ 29زخمی ہوئے ، زیادہ اموات میتھین گیس بھر جانے کے باعث ہونے والے
‎دھماکوں سے ہوئیں ۔

‎سال 2022 میں بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں 55 حادثات میں 70 سے زائد کان کن اپنی جان سے گئے۔
‎بلوچستان میں زیرِ زمین کان کنی زیادہ ترپلر اینڈ روم طریقے سے کی جاتی ہے، جو کہ کان کنی کا سب سے خطرناک طریقہ ہے اور دنیا بھر میں اس طریقے کا استعمال بند کردیا گیا ہے۔

‎مزدورں کے لئے مہم چلانے والوں اور ریسرچرز  نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ کان کنی کے جدید طریقے لاگو کی جائیں اور کان کنوں کو ذاتی حفاظتی سامان بھی مہیا کی جائیں، جن میں سانس لینے کے لئے ماسک، چشمے، آکسیجن سیلنڈر اور گیس کی مقدار کو بھانپنے والے آلات شامل ہیں۔