آپریشن زر پہازگ – منیر بلوچ

633

آپریشن زر پہازگ

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستنا پوسٹ

زندگی موت کا حصہ ہے، موت کے بغیر زندگی کا نہ کوئی وجود ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مقصد ہوتا ہے۔ موت ہی ایک غلام قوم کو زندگی کی رعنائیوں سے روشناس کراتا ہے لیکن وہ موت کیا موت ہوگی جب کوئی وطن کا دیوانہ وطن کی مٹی کے لئے اپنے ساتھیوں سے بغل گیر ہو کر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے مقصد کو پالیتا ہے۔ موت نہیں وہ اصل زندگی ہے جس کے لئے گوتم بدھ دنیا کی آسائشوں کو ٹھکرا کر جنگلوں کا رخ کرتا ہے۔ اسپارٹیکس کئی گنا طاقتوروں کو مقابلے کی دعوت دیکر موت کو گلے لگاتا ہے۔ نواب بگٹی اور عمر مختار قوم کے لئے موت کی چاہ میں دشمن سے لڑ کر امر ہوجاتے ہیں۔

بلوچ فدائین بھی زندگی کی تلاش میں گوادر کے حساس ترین علاقے میں دشمن پر کاری ضرب لگا کر موت سے بغل گیر ہوتے ہیں اور ایک ایسی زندگی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جہاں موت کی گزر کبھی نہیں ہوتی وہاں بس زندگی ہے اور وہی زندگی جس کی تلاش صدیوں سے انسان کرتا آرہا ہے اور یہ زندگی جس پر پوری قوم اپنے فدائین پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔

معرکہ زر پہازگ

زر پہازگ چائنا اور پاکستان کی بلوچ قوم پر استحصالی پالیسیوں کے خلاف بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی فدائی کاروائیوں کا نام ہے- موجودہ معرکہ زر پہازگ مجید بریگیڈ کی معرکوں کا تسلسل ہے۔ اس سے قبل بلوچ لبریشن آرمی نے آپریشن زر پہازگ کے تحت تین حملے چائنا کے منصوبے پر کرکے دشمن کو شدید نقصان پہنچایا اور یہ پیغام دیا کہ بلوچ سر زمین پر کوئی بھی استحصالی منصوبہ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس معرکے کا چوتھا مرحلہ بیس مارچ سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہوا اور ڈھائی گھنٹہ جاری رہا جس میں قابض کے حساس اداروں کے متعدد اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

بی ایل اے ترجمان کے مطابق اس معرکہ میں فدائیں حکیم بلوچ، بابر ناصر، صوالی، مسلم مہر، کریم جان، مروان، خدا دوست اور ریاض الہی شامل تھے۔

تنظیم نے آپریشن زر پہازگ کاچوتھے مرحلے پر دنیا کو پیغام دیا کہ یہ حملہ ان تمام بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے ایک پیغام ہے جو پاکستانی ریاست اور فوج کی جھوٹی تسلیوں پریقین کرکے گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بی ایل اے ریاست پاکستان کے انتہائی سکیورٹی حصار میں شہر کے محفوظ ترین علاقوں میں اہم خفیہ اداروں کے مرکزی دفتر پر حملہ آور ہو کرکئی گھنٹوں تک دشمن اہلکاروں کو نیست و نابود کرسکتا ہے تو وہ کسی بھی شہر اور علاقے میں اپنے مشن سرانجام دے سکتا ہے ۔

قربانی کا فلسفہ

گوادر کے حساس ترین علاقے میں دشمن کو شکست سے دوچار کرکے شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے بلوچ سرمچار قربانی کے عظیم فلسفے پر گامزن تھے۔ نہ صرف یہ بی ایل اے کے فدائین کی جنگی مہارت کا ثبوت تھا بلکہ بہترین انٹلیجنس معلومات کا بھی شاخسانہ تھا جس نے قابض کے اہم مرکز میں گھس کر دشمن کی اہم ترین سیکیورٹی ایجنسی کو نشانہ بنایا۔

بلوچ قومی جدوجہد کی مسلح کاروائیوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ مسلح تنظیم نے بہترین جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن فوج کی ایجنسی کے اہم مراکز کو نشانہ بنا کر انہیں بھاری تعداد میں نقصان سے دو چار کیا ہے۔

خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ملک کی انتہای اہم ادارے ہوتے ہیں جو حملوں سے بچانے کے لئے ہر وقت متحرک ہیں اور انہی اداروں کے مراکز کو نشانہ بنانا نہ صرف بلوچ لبریشن آرمی کی طاقت اور عوامی حمایت کا اظہار ہے بلکہ دشمن کو واضح پیغام ہے کہ ہم کسی بھی وقت اور مقام پر انہیں نشانا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گوادر جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا، جہاں دشمن کے خیال میں حملے کی منصوبہ بندی کرنا ممکن نہیں اور ایسے مقام پر حملہ استاد اسلم بلوچ کی قربانی کے فلسفے اور چئیرمین بشیر زیب و تنظیمی رہنماوں کی جدید جنگی پالیسیوں کا واضع اظہار ہے۔

سیاست اور جنگی امتزاج

پاکستان اس وقت نہ صرف معاشی بحران کا شکار ہے بلکہ سیاسی اور مسلح جدوجہد نے پاکستان کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا ہےجہاں سے نکلنا اس کے لئے ناممکن بنتا جارہا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جہاں فوج کی مکمل حکمرانی ہے وہاں دنیا میں بہتر امیج پیش کرنے کے لئے انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا اور ایک نئی ٹیم تشکیل دی گئی تاکہ آئی ایم ایف اور دیگر ملکوں سے قرض لے کر ملک کی معشیت کو بہتر کرسکیں اور چائنا کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری پر کام کو شروع کیا جاسکے لیکن بی ایل اے کے اس حملے نے نہ صرف دنیا کو پیغام دیا کہ بلوچستان میں بلوچ عوام کی مرضی کے بغیر کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ چائنا کو بھی واضح پیغام ملا ہے کہ پاکستان میں بھی بھی حکومت ہوں لیکن بلوچستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

حالیہ زر پہازگ معرکہ نہ صرف بہترین جنگی حکمت عملی شاخسانہ تھا بلکہ اس میں سیاست کا بھی امتزاج شامل تھا کیونکہ پاکستان میں نئی حکومت کا قیام اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز شروع کرنے کا بیان اس حملے کے بعد منوں مٹی تلے دفن ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ حملہ واضع اظہار ہے کہ قومی تنظیموں کی قیادت جنگی اور سیاسی حکمت عملیوں کے امتزاج سے قابض کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

عوامی حمایت اور بین الاقوامی میڈیا

تحریکوں کی کامیابی عوامی طاقت کی مرہون منت ہے۔ جہاں بھی فدائی حملے ہوئے بلوچ عوام نے وسیع پیمانے پر حمایت کا اظہار کیا اور فدائین کو قومی ہیروز کا درجہ دے کر سپرد گلزمین کیا ہے ۔

پاکستان ہمیشہ دنیا کے سامنے بلوچستان میں قومی آزادی کے انسرجنسی سے نمٹنے کے لئے اپنے ملک کا اندرونی مسئلہ قرار دیتا ہے اور اس حوالے سے دنیا کے سامنے گمراہ کن حقائق پیش کررہا ہے لیکن بلوچ لبریشن آرمی کے گزشتہ پانچ سالوں میں پے در پے حملوں کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں قومی اداروں کی کاروائیوں کی خبریں نشر کررہا ہے اور اس سے عالمی دنیا میں واضع ہورہا ہے کہ بلوچ جنگ آزادی پاکستان کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بلوچ قوم اپنے آزادی کے لئے پاکستان سے برسرپیکار ہے جو قومی تنظیموں کی ایک اہم فتح ہے۔

فوج کا گرتا ہوا مورال

بلوچستان قابض فوج کے لئے ایک مقتل گاہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر بلوچ مسلح تنظیمیں انہیں نشانہ بنارہے ہیں، جس سے فوج سخت مشکلات کا شکار ہے۔ فوج کی گرتی ہوئی مورال اور انہیں نفسیاتی شکست سے بچانے کے لئے پاکستان فوج کا شعبہ تعلقات عامہ ہمیشہ اپنے ہلاکتوں کو چھپا کر پیش کرتا آرہا ہے۔ حالیہ گوادر حملے میں بھی فوج نے اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے صرف دو ہلاکتوں کا اعتراف کیا لیکن بی ایل اے نے پچیس سے زاہد اہلکار ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ سوشل میڈیا میں اہلکاروں کے خاندانی ذرائع نے ہلاک ہونے والوں کی تصاویر اور مقام ہلاکت بھی پوسٹ کئے ہیں جس سے واضع ہے کہ ہلاکتیں بڑے پیمانے پر ہوئیں ہیں۔

بلوچستان میں مسلح کاروائیاں اور فدائی حملے ریاست پر کاری ضرب ہیں، جن کی تاب نہ لاتے ہوئے پاکستانی اہلکار نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں جس سے فوجیوں میں مسلسل خودکشی کے واقعات رونما رہے ہیں

حرف آخر

بلوچ قومی تحریک آزادی ایک سیاسی جدوجہد ہے جس میں مسلح جدوجہد کو بہترین ذریعہ گردانتے ہوئے استعمال کیا جارہا ہے اور اسی مسلح جدوجہد نے تحریک کو ایک مقام عطا کیا ہے۔

بی ایل اے کی جدید جنگی حکمت عملیوں نے نہ صرف بلوچ جنگ کو جدیدیت کی طرف گامزن کیا ہے بلکہ بلوچ معاشرے میں بی ایل اے کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے، خاص کر نوجوانوں میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔ بی ایل اے کی موجودہ قیادت کے فیصلے لینے کی صلاحیت اور عمل سے واضع ہے کہ مستقبل میں بلوچ انسرجنسی ایک نیا رخ اختیار کرکے فیصلہ کن معرکہ کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔