‏قابض ریاست کے الیکشنز کی بلوچستان میں کوئی حیثیت نہیں۔ درپشان بلوچ

156

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی چیئرمین دْرپشان بلوچ نے 8 فروری کو ہونے والے الیکشنز پر بلوچ قوم کے نام جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ بلوچستان میں الیکشن کے نام پر ایک مرتبہ پھر قابض پاکستانی ریاست ڈرامائی انتخابات کا انعقاد کر رہی ہے۔ بلوچستان میں ان الیکشنز کی کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں ہے کیونکہ قابض اور غلام کے درمیان انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ جب ایک قوم نے خود جہدِ آزادی جیسے عظیم مقصد کا فیصلہ کیا ہے، جب ایک قوم اپنے کلچر، زبان، زمین و لوگوں کی حفاظت اور دفاع کا دلیرانہ فیصلہ کر چکی ہے، ان سب سے بالا جب ایک قوم نے ریاستی قبضے کو مسترد کر دیا ہے، تو یہاں قابض ریاست کے الیکشنز و دیگر نام نہاد ادارہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس لیے بلوچ عوام اپنی تاریخی فیصلہ پر قائم رہ کر نا صرف ریاستی انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کرے بلکہ ریاستی قبخے کے خلاف جاری بلوچ قومی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیں۔

‏انہوں نے کہا کہ چونکہ اس وقت ریاستی عناصر بلوچستان بھر میں لوگوں کو ڈرا و دھمکا کر اور انہیں زور زبردستی الیکشن کیلئے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چند نام نہاد مفاد پرست پارٹیاں جو خود کسی نہ کسی طریقے سے بلوچستان میں ریاستی قبضے کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں ہیں بھی اس الیکشن میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ بار بار اس بات کا اعادہ کرنے کے باوجود کہ قابض ریاست کے نام نہاد پارلیمنٹ میں انکے گماشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، سوائے یہ کہ ریاست اپنے مفادات کے تحت انہیں استعمال کرے لیکن اس کے باوجود یہ مفاد پرست لوگ الیکشنز جیسے ڈراموں میں بھرپور حصہ لیکر ریاست کو اپنی وفاداری دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

‏انکا کہنا ہے کہ ایک جانب مخصوص جماعتیں بے اختیاری کا رونا روتی ہیں تو دوسری جانب سائل و سائل کی حفاظت کی بات بھی کرتی ہیں، ایک جانب سودے بازی میں سب سے آگے ہوتےہیں تو دوسری جانب بلوچ وسائل کے رکھوالے ہونے کی بھی بات کرتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والے یاد رکھیں کہ تاریخ میں ان کے مفاد پرستانہ اور ریاستی قبضے کو دوام بخشنے کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ایک طرف بلوچستان بھر میں لوگ اٹھائے جا رہے ہیں، مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جا رہی ہیں۔ لاپتہ افراد کے فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان بھر میں بلوچ خواتین سڑکوں پر نکل چکے ہیں اور بلوچ خواتین کی بدترین بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے تو ایسے حالات میں دوسری جانب چند نام نہاد مفاد پرست لوگ الیکشن کا ڈرامہ رچا رہے ہیں اور پارلیمنٹ و حقوق کے رٹے لگا رہے ہیں۔ بلوچ قوم آج اس حقیقت سے مکمل طور پر واقف ہو چکی ہے کہ بلوچستان میں پاکستان ایک قابض کی صورت میں موجود ہے اور اس کی فوجی اداروں سے لیکر پارلیمانی ادارے تک سب بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں اور بلوچستان میں ریاستی قبضے کو منظم بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ اگر بلوچ قوم اس قبضے سے نجات چاہتی ہے تو انہیں قابض ریاست کے تمام اداروں سے بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی پارلیمنٹ میں بلوچ نسل کشی سمیت تمام ریاستی پالیسیاں مرتب ہوتے ہیں اور انہی پالیسیوں کے تحت بلوچستان میں ریاستی قتل عام جاری ہے۔ ریاست ان نام نہاد الیکشن کے ذریعے اپنے ڈیتھ اسکواڈز کو سیاسی پہچان دے کر ایک طرف دنیا کو بےوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہے اور دوسری جانب بلوچستان میں ان کے ہاتھ مضبوط کرکے عام عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ بلوچ قوم یاد رکھیں کہ الیکشن میں حصہ لینے والے شفیق مینگل جیسے بھی ہیں جن کے ہاتھوں سینکڑوں بلوچ کے خون سے رنگے ہیں۔ انہیں ووٹ دے کر آپ بھی اپنے ہاتھوں کو بلوچ خون سے رنگ دے رہے ہونگے۔

‏آخر میں انہوں نے کہا کے ان تمام حالات میں بلوچ قوم پرفرض ہے کہ وہ شعوری طور پر پاکستانی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ریاستی قبضے کے خلاف جاری مزاحمت کا حصہ بنیں۔ کیونکہ اس جدوجہد کا تعلق قوم کی حمایت سے ہے۔ ان حالات میں انتخابات جیسے عمل کو قومی سطح پر ترک کرکے ہم قومی جدوجہد کی خاموش حمایت کے ساتھ دشمن پر بھی واضح کر سکتے ہیں کہ بلوچ قوم مزید اس ریاستی نظام پر بھروسہ نہیں رکھتی۔