نگران حکومت کی حقائق سے چشم پوشی – ٹی بی پی اداریہ

111

نگران حکومت کی حقائق سے چشم پوشی

ٹی بی پی اداریہ

پاکستان کے نگران حکومت کو مقتدر قوتوں کی حمایت یافتہ تصور کیا جاتا ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ انہی قوتوں کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار کاکڑ اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی مسلسل تکرار کررہے ہیں کہ تشدد کا اختیار صرف ریاست کو ہے اور یہ اظہار ریاستی تشدد کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے ۔

پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی پاکستان کے پارلیمنٹ، سیاست اور میڈیا میں مقتدر قوتوں یا فوج کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے آوازوں کو ختم کرنے کی بات کرنا تشویشناک ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی قومی ؤ انسانی حقوق کے لئے جدوجہد سے وابستہ افراد ریاستی عتاب کا شکار ہیں۔

پشتوں رہنما علی وزیر پاکستان کے قومی اسمبلی ممبر ہوتے ہوئے بھی کراچی جیل میں دو سال تک مختلف مقدمات میں زیر عتاب رکھے گئے، علاج کی سہولیات سے محروم رکھا گیا اور اُن کے سیاسی ساتھیوں کو بوگس مقدمات میں نامزد کیا جارہا ہے۔ پشتون قوم کے بنیادی انسانی مطالبات کو پورے کرنے کے بجائے پشتوں تحفظ مومنٹ کو غیرملکی ایجنسیوں سے منسلک کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے۔

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات کی قومی حقوق کے تحریکوں کو افغانستان اور دہشتگردی سے منسلک کرنے سے حقائق نہیں بدل سکتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پشتون ؤ بلوچ اقوام صدیوں سے رہتے ہیں، اُن کے حقوق کے لئے دھرنے میں شرکت کرنے پر منظور پشتین کو گرفتار کرکے اُن پر مقدمات چلانے اور تربت تا کوئٹہ لانگ مارچ کے آئینی مطالبات پورے کرنے کے بجائے اُن پر دہشتگردی کی دفعات پر ایف آئی آر کے اندرج کرنے سے عوامی غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔

پاکستان کے نگران حکومت کی حقائق سے چشم پوشی سے معروضی حالات نہیں بدل سکتے ہیں۔ تشدد کے زریعے قوموں کو حقوق سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ قومی ؤ انسانی حقوق کے لئے جدوجہد سے وابستہ لوگوں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں ریاستی طاقت اور جبر کے زریعے دبانے سے مسائل اور زیادہ گھمبیر بن جائیں گے۔ پاکستان میں قوموں کے پُرامن سیاسی مزاحمت کے راستے مسدود کئے جائیں گے تو سیاسی اداروں ؤ جماعتوں کے لئے تشدد کا راستہ اپنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا ۔