نصیرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کےلیے ایک منظم تحریک چلائی جائے گی۔بساک

150

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ایک طلباء تنظیم کی حیثیت سے بلوچستان اور ملک بھر کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں بلوچ طالبعلموں کی شعوری اور اجتماعی بنیادوں پر زہنی تربیت کے ساتھ بلوچ معاشرے میں تعلیم کو فروغ دینے کےلیے مسلسل کوشاں ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے بنیادی تعلیم کیاہمیت، ضرورت اور اعلی تعلیمی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلیےایک مہم بلوچ لٹریسی کمپین جاری ہے جس کا بنیادی مقصد بلوچ قوم کی لٹریسی (خواندگی) ریٹ میں اضافہ ہے۔ بلوچ لٹریسی کمپین کے تحت تنظیم کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ نصیر آباد جو کہ بلوچستان اور ملک کا ایک بڑا اور پسماندہ ڈویزن ہے وہاں یونیورسٹی کے قیام کےلیے منظم تحریک چلائی جائی گئی۔ آج اس پریس کانفرنس کے تحت ہم نصیر ٓاباد یونیورسٹی مہم کا باقائدہ آغاز کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ تعلیم کو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی اور ہر انسان کا بنیادی حق جانا جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ ج اپنی جمع کردہ مہارت، علم اور تجربات کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچاتا ہے۔ بلوچستان زمین ، دولت، قدرتی وسائل کے لحاظ سے امیر خطہ ہے۔ اس میں سونے، تانبے، سنگ مرمر، کوئلے اور بہت سے دیگر شکل میں متعدد معدنی وسائل موجود ہیں۔لیکن آج کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ اس وقت بلوچستان بہت سے مسائل سے دوچار ہے جن میں تعلیم سرفہرست ہے۔بدقسمتی سے بلوچستان کو شروع دن سے ہی تعلیمی بحران کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں بنیادی تعلیم کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہم بلوچستان کے تعلیمی فیصد کا دوسرے صوبوں سے موازنہ کریں تو یہ ہمیں حیران اور مایوس کر دیتا ہے۔ بلوچستان کا موجودہ تعلیمی فیصد 3۰ سے 4۰ کے درمیان ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں تعلیم کا تناسب 64، سندھ میں 58 اور کے پی کے میں 55 ہے۔ بے روزگاری، غربت، آگاہی کی کمی، اساتذہ کی غیر حاضری، اچھے تعلیمی اداروں کی کمی اور حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو چیک اینڈ بیلنس کا فقدان بلوچستان میں تعلیمی نظام کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

بساک رہنماؤں نے کہاکہ نصیرآباد جو کہ بلوچستان بھر میں گرین بیلٹ کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ ملک کے زرعی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ نصیر پانچ ضلعوں پر مشتعمل ایک ڈویزن ہے جن میں ڈیرہ نصیرآباد، جعفرآباد، جھل مگسی، بولان، صحبت پور اور اوستہ محمد شامل ہیں۔ نصیر آباد کے زراعت سے ملک بھر میں خوراک کی کمی پورا کرنے سمیت یہاں کے معیاری چاول کو ایکسپورٹ کرکے حکومت زرمبادلہ کما رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی کے ساتھ نصیرآباد ایک زرخیز خطہ ہونے کے باوجود یہاں کے عوام آج بھی جدید دنیا کے بنیادی سہولیات سے محروم زندگی بسر کررہے ہیں۔ نصیرآباد میں بنیادی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح نصیرآباد کے عوام بھی تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ نصیرآباد کے بیشتر دیہی علاقوں میں ۸۰ فیصد سے زائد اسکول بند ہیں۔ باقی اسکول یا تو جزوی طور پر چل رہے ہیں یا ان میں اسٹاف کی کمی ہے اور بیشتر اسکولوں میں بنیادی سہولیات جیسے کلاس رومز، بجلی، پانی، چاردیواری نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بنیادی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے باعث ہزاروں کی تعداد میں بچے اور بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں اور چائلڈ لیبرنگ کرنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوش قسمتی سے اگر کوئی طالب علم انٹرمیڈیٹ تک پہنچ پاتا ہے تو نصیرآباد ڈویزن میں اعلی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے سبب تعلیم یہی پر ترک کردیتے ہیں۔ بیروزگاری، معاشی تنگدستیوں کے سبب بیشتر طالبعلم دوسرے شہروں میں اعلی تعلیم کیلیے نہیں جا سکتے اور اس وجہ سے سینکڑوں طالبعلم میٹرک یا اینٹرمیڈیٹ کے بعد تعلیم ترک کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ علاقے میں اعلی تعلیمی ادارہ نہ ہونے کے سبب طالبات کو تعلیم دینے کا رجحان نہایت ہی کم ہے۔

انکا کہنا تھاکہ نصیرآباد جو کہ ۲۰ سے ۲۵ لاکھ آبادی پر مشتعمل ایک زرخیر زرعی خطہ ہے لیکن پچھلے ستر سالوں سے اعلی تعلیمی سہولیا ت سے محروم ہے۔ نصیرآباد ڈویزن میں اعلی تعلیمی کی فراہمی کےلیے ایک بھی بڑی یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ لوامز اوتھل کا سب کیمپس موجود ہے جس میں صرف پانچ ڈیپارٹمنٹ اس وقت فنکشنل ہیں اور ایک ہزار کے قریب طالبعلم زیر تعلیم ہیں۔ اتنے بڑے خطے اور آبادی کےلیے ایک سب کیمپس کافی نہیں ہے اور اس خطے کے عوام کو یونیورسٹی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم رکھنا یہاں کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ جامعات کسی بھی علاقے اور معاشرے کی ترقی کےلیے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ نصیرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے علاقے کے نوجوان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرکے معاشرے کی ترقی کےلیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ نوجوان سائیسنی بنیادوں پر ریسرچ اور تحقیق کے شعبوں میں جاکر خطے کے حالات کو بدل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے قیام سے یہاں کی زبان اور ثقافت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونگے۔

مزید کہاکہ نصیرآباد جو کہ زرخیر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے آبادی پر مشتعمل ایک وسیع خطہ ہے۔ نصیرآبادی یونیورسٹی کا قیام یہاں کے عوام کا بنیادی حق اور اولیں ضرورتوں میں سے ایک ہے۔نصیرآبادی یونیورسٹی کا قیام یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ یونیورسٹی کے قیام کےلیے بلوچستان اسمبلی میں بل بھی پاس ہوچکا ہے اور کیبنٹ نے بھی سمری منظور کی ہے لیکن اس سے آگے پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے مختلف سماجی اور سیاسی حلقوں میں بھی یونیورسٹی کےقیام کے لیے کمپین چل رہی ہے جس کی ہم بھرپورحمایت کرتے ہیں ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے نصیرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کےلیے ایک منظم تحریک چلائی جائے گی جس میں عوامی سطح پر موبلائزیشن، نوجوانوں کو اس مہم میں یکجا کرنا، آگاہی مہم، ایجوکیشنل واک، انٹریکٹویو سیشنز، احتجاجات وغیرہ شامل ہیں۔ نصیرآباد کے ، طلباءُ طالبات، اساتذہ کرام، سیاسی و سماجی شخصیات اور دیگر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس مہم میں بھر پور شرکت کرکے تنظیم کا ساتھ دیں تاکہ اس مہم کو ہم ایک منظم اجتماعی تحریک کی شکل دے کر اقتدار اعلی سے نصیرآباد کے عوام کےلیے یونیورسٹی کے بنیادی حق کو چھین سکیں۔ امید کرتے ہیں کہ نصیر آباد کے باشعور عوام اس اجتماعی مسئلے پر ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔