برسلز میں فائرنگ سے دو افراد ہلاک، دہشت گردی کا الرٹ جاری

165

ابھی تک حملے کی وجوہات واضح نہیں ہیں، تاہم بیلجیئم میں دہشت گردی سے متعلق وفاقی پراسیکیوٹر نے کیس اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ حملے میں ہلاک ہونے والے دونوں افراد سویڈن کے شہری تھے جبکہ مشتبہ شخص کو بھی ہلاک کر دیا گيا ہے۔

بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز کے پلیس سینٹلیٹ میں پیر کی شام کو ہونے والی فائرنگ میں سویڈن کے دو شہری ہلاک اور ایک شخص زخمی ہو گیا۔ برسلز میں حکام کے ایک تازہ بیان کے مطابق مشتبہ حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

نیشنل کرائسز سینٹر کے ترجمان انٹون آئسکس نے پیر کی شام کو بتایا کہ بیلجیئم میں خطرات کا تجزیہ کرنے والی ٹیم (او سی اے ایم) نے برسلز میں خطرے کی سطح کو اپنی بلند ترین سطح درجہ چار تک بڑھا دیا ہے، جبکہ ملک کے باقی علاقوں میں یہ سطح فی الوقت درجہ تین تک ہی ہے۔

ملکی رہنماؤں نے شہریوں پر زور دیا تھا کہ وہ گھر کے اندر ہی رہیں اور ”چوکس رہیں۔” فیڈرل پراسیکیوٹر کے دفتر کے ترجمان ایرک وان ڈیوس نے بیلجیئم کے باشندوں کو مشورہ دیا کہ وہ ”گھر جائیں اور جب تک خطرہ ختم نہیں ہو جاتا گھر پر ہی رہیں۔”

بیلجیئم کے وزیر اعظم الیگزینڈر ڈی کرو نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا، ”میں نے ابھی (سویڈش وزیر اعظم الف کرسٹرسن) سے برسلز میں سویڈش شہریوں پر ہونے والے ہولناک حملے کے بعد اپنی مخلصانہ تعزیت پیش کی ہے۔ ہمارے خیالات ان خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ قریبی شراکت داروں کی حیثیت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ مشترکہ ہے۔”

وزیر اعظم ڈی کرو نے اشارہ کیا کہ یہ حملہ ”دہشت گردی” سے منسلک ہو سکتا ہے اور اعلان کیا کہ انہوں نے کابینہ کے اعلی وزراء کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

وزیر داخلہ اینیلیز ورلنڈن نے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”برسلز میں ایک خوفناک فائرنگ ہوئی اور مجرم کا پوری سرگرمی سے سراغ لگایا جا رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ نیشنل کرائسز سینٹر میں حکومتی مذاکرات میں بھی شامل ہوئیں۔

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے ایکس پراپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ”آج رات، میرے خیالات برسلز میں نفرت انگیز حملے کے دو متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ میں بیلجیئم کی پولیس کے لیے اپنی دلی حمایت کا اظہار کرتی ہوں، تاکہ وہ تیزی سے مشتبہ شخص کو پکڑ سکیں۔  ہم مل کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔”

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے پیر کے روز کہا کہ یورپ دہشت گردانہ حملے سے ”ہلاک” ہوا ہے۔ البانیہ کے دارالحکومت ترانا میں خطاب کرتے ہوئے ماکروں نے کہا، ”چند منٹ پہلے، برسلز ایک بار پھر ایک اسلام پسند دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوا، جس نے بظاہر، جیسا کہ میں آپ سے بات کر رہا ہوں، کم از کم دو یورپی باشندوں، سویڈن کے شہریوں کی، جان لے لی۔”

بندوق بردار مبینہ طور پر داعش کا رکن

ایک مقامی اخبار کی اطلاع کے مطابق مشتبہ بندوق بردار نے مبینہ طور پر نام نہاد اسلامی دہشت گرد تنظیم ”اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس)” کا رکن ہونے کا دعویٰ کیا۔ اسے گیروے رنگ کی جیکٹ پہنے دیکھا گیا تھا، جو ایک خودکار رائفل کا استعمال کرنے کے بعد اسکوٹر پر فرار ہو گیا۔”

سویڈن کے وزیر انصاف نے پیر کی شام کو کہا تھا، ”ہمیں برسلز سے خوفناک معلومات ملی ہیں، آخر ہوا کیا اس بارے میں سویڈن مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے پوری شدت سے کام کر رہا ہے۔”

مقصد واضح نہیں تاہم علامات کا اشارہ اسلامی شدت پسندی کی طرف

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ بندوق بردار کی محرکات ابھی تک واضح نہیں ہیں، تاہم ایک ویڈیو، جس میں عربی بولنے والے ایک شخص نے، فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی ہے، سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔”

بیلجیئم میں دہشت گردی سے متعلق کیسز کے انچارج وفاقی پراسیکیوٹر نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے معاملہ سنبھال لیا ہے کہ آیا اس حملے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

یہ فائرنگ ایک ایسے وقت  ہوئی ہے جب یورپی ممالک سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ہی اسرائیل کے خلاف

 حماس کے حالیہ دہشت گردانہ حملے اور پھر جواباً غزہ میں اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کی روشنی میں سکیورٹی کے بارے میں کافی فکر مند ہیں۔