سردار عطاء اللہ مینگل کی دوسری برسی، کوئٹہ میں بی این پی کا جلسہ

280

بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام سردار عطا اللہ مینگل کے دوسری برسی کی مناسبت سے ریلوے ہاکی گراونڈ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہاکہ جیلوں میں جانے والے ایئر کنڈیشن اور فائیوسٹار ہوٹلوں جیسی مراعات مانگ رہے ہیں صوبے بھر سے آنے والے سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو جلسہ میں شرکت کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، زندہ قومیں اپنے اکابرین کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں، آج تو کاٹن کے کپڑے پہن کر بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر سیاست کی جاتی ہے۔

سردار اختر مینگل نے کہا آج ہم جیلوں میں جانے والے ایئرکنڈیشن اور فائیو سٹار ہوٹلوں جیسی مراعات مانگتے ہیں، ہمارے اکابرین نے مشکل حالات میں جیلیں کاٹیں، ہمارے اکابرین جیلوں میں جانے پر فخر کرتے تھے، آج کے سیاستدان جیل تو دور، ریل میں جانے سے بھی کتراتے ہیں۔

سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس سر زمین کی اپنے خون سے حفاظت کی انہیں غدار کہا جاتا ہے، ہمارے اکابرین کی وفات کا دن سرکاری سطح پر نہیں منایا جاتا ہے، ہمیں اپنے اکابرین پر فخر ہے جنہوں نے اپنی عوام کی پگڑی اونچی کی۔

سردار اختر مینگل کہا ہم آج بھی اپنے گمشدہ لوگوں کے انتظار میں ہیں، بلوچستان میں بسنے والی تمام اقوام کو بلوچستانی مانتے ہیں، بلوچستان کی تمام سیاسی قوتیں الیکشن نہیں بلکہ ایک نکاتی ایجنڈا پر متحد ہوں، میں بحیثیت کارکن بن کر اس اتحاد میں تاقیامت چلنے کو تیار ہوں۔

سردار اختر مینگل نے مزید کہا ہم اس سر زمین کے نمک حلال ہیں، تجربات نے ملکی معاشی حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا، دوست ہم سے ناراض ہوچکے ہیں۔

بعد ازاں جلسہ میں 13 قرار دادیں پیش کی گئیں۔ قرار دادوں میں کہا گیا کہ آج کا یہ عظیم جلسہ راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل کو قربانیوں، ثابت قدمی، جہد مسلسل پر خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ جلسہ موجودہ مشترکہ مفادات کونسل کے اس عمل کی شدید مذمت کرتا ہے کہ بیک جنبش قلم مردم شماری میں بلوچستان کی 70 لاکھ سے زائد آبادی کم کرکے بلوچستان دشمنی پر مبنی اقدامات کیے گئے۔ یہ جلسہ آرمی ایکٹ اور اب سویلین کا آرمی کورٹ میں ٹرائل انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے جس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ جلسہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کو یقینی اور گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر عوام کا حق حاکمیت تسلیم کیا جائے، علی وزیر سمیت ماورائے قانون گرفتار تمام سیاسی رہنماﺅں و کارکنان کو رہا کیا جائے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔سردار اختر مینگل کے لاپتہ افراد بارے منعقدہ سیمینار میں شرکت پر ہرزہ سرائی کی گئی جس سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ نگراں حکومت غیر جانبدار نہیں، جلسہ عام مطالبہ کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر بلوچستان حکومت کے اس بیان کا سختی سے نوٹس لے اور سیاسی معاملات میں مداخلت سے روکا جائے۔ بلوچستان سے ہونے والی نا انصافیوں، وسائل کی لوٹ مار، عوام کو ان کے حق سے محروم رکھنے کے عمل کی مذمت کرتا اور مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کا معاشی استحصال فوری بند کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام کو این ایل سی کے ذریعے کاروبار سے بے دخل کرنے اور مقامی افراد کے آباﺅ اجداد کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور کوڑیوں کے دام زبردستی خریدنے کے اقدام کی مذمت کرتا ہے اس عمل کو فوری بند ہونا چاہیے۔جلسہ عام مطالبہ کرتا ہے کہ آئین کی رو سے انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ضروری ہے، نئی حلقہ بندیوں کی آڑ میں الیکشن میں تاخیر نہ کرتے ہوئے انتخابات کرائے جائیں۔ گزشتہ چند ماہ سے اسٹیبلشمنٹ کی آشیر آباد سے بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کی سرگرمیاں بالخصوص وڈھ میں جاری ہیں جس کا مقصد بلوچستان میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلنا ہے، جلسہ عام مطالبہ کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈیتھ اسکواڈ کی حمایت سے اجتناب کرے، جلسہ بی این پی کی قیادت کو محصور کرنے کی پالیسی کی مذمت کرتا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان میں بیروزگاری عروج پر ہے لہٰذا بلوچستان کے مغربی اور شمالی سرحدوں پر تجارت اور کاروبار میں آسانی پیدا کی جائے۔ جلسہ سریاب روڈ کی تعمیر، کوئٹہ شہر میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے اور عوام کو ٹینکر مافیا سے نجات دلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔