بلوچستان کی احساس محرومی 1947 سے قائم مائنڈ سیٹ سے وابستہ ہے – سردار اختر مینگل

204

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق و زیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بڑے عہدوں پر بلوچستانیوں کے آنے سے احساس محرومی ختم نہیں ہوگی، لاپتہ افرادکی بازیابی، سیاست میں عدم مداخلت مسائل کا حل ہے۔ پی ٹی آئی کےساتھ معاہدے پر نیک نیتی محسوس نہ ہونے پر الگ ہوئے شہباز شریف کی حکومت کی حمایت کے بعد 2022ء میں نواز شریف کو بلوچستان کے مسائل پر خط لکھا لیکن کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک پاکستانی نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

سردار اخترجان مینگل نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ بڑے عہدوں پر بلوچستان کے لوگوں کے آنے یا جانے سے احساس محرومی ختم ہوگی کیونکہ بلوچستان کی احساس محرومی اس مائنڈ سیٹ سے وابستہ ہے جو 1947سے لیکر آج تک قائم ہے کیااس مائنڈ سیٹ میں تبدیلی آئی ہے؟ چہروں کے بدلنے سے اور یہاں پر عوامی مینڈیٹ لیکر ہم تسلیم کرسکتے ہیں کہ حقیقتاََ جمہوریت آئی ہے، عدالتوں میں سپریم کورٹ سے لیکر لور کورٹ تک جو ججز صاحبان آئے ہیں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہوئی ہے، اینکرز ٹاک شوز میں گھنٹوں کے پروگرام کرتے ہیں تو کیا ہم یہ سوچے کہ میڈیا آزاد ہے؟ اگر ان کے آنے سے بلوچستان کی احساس محرومی ختم ہوگی تو پھر میڈیا، عدالتیں آزاد ہیں جمہوریت پل پھول رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جب پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا، وزیر اعظم، صدر، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر تک ووٹ دیئے جب معاہدے پر عمل نہیں ہوا اور ہم نے محسوس کیاکہ نیک نیتی نظر نہیں آرہی ہے 47والا مائنڈ سیٹ چلا آرہا ہے تو ہم نے خیرباد کیا، جب شہباز شریف کی حکومت بنی تھی تو ہم نے حکومت سازی تک ساتھ دیا حتٰی الوسع کوشش کی کہ ہر اجلاس میں یقین دہانی کراتے رہے اور تسلیاں دیتے رہے ۔

انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا کمیٹیاں بنتی رہیں مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی آﺅٹ فٹ نہ نکلا، نواز شریف کو 2022ء میں ایک خط بھی لکھا تھا تمام مسائل حل کی یقین دہانی ہوئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

انہوں نے کہاکہ جب تک بلوچستان کے سیاسی معاملات میں اداروں کی مداخلت بند نہیں کی جاتی لوگوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندگان کو خود چھینیں، پی ٹی آئی کی طرف سے جو لفظ آیا سلیکٹڈ نیشنل عوامی پارٹی کے وقت یہ لفظ زیادہ استعمال ہوا تھا، عوام کے حقیقی نمائندوں کو موقع دیا جائے، لاپتہ افراد کا اہم مسئلہ ہے جو دو دہائیوں سے چلا آرہا ہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے، بازیابی کے دعوے کرنے والوں کی حکومت میں تعداد بڑھ گئی، بلوچستان کی معاشی بدحالی، صنعتوں کا نہ ہونا، بلوچستان کا ایک بڑا سرحد کاروبار ہے جبکہ صنعتی علاقہ حب ہے جہاں زیادہ لوگ کراچی کا ہے جب تک معاشی ترقی نہ ہو سیاسی معاملات میں مداخلت بند نہ ہوں تو مسائل حل نہیں ہونگے، نگران حکومت کو حکومت نہیں سمجھتا، مسائل کے حل میں اسٹیبلشمنٹ کی اہم ذمہ داری ہے، ریاستی اداروں کو ملک کو بچانے کیلئے کڑوے گھونٹ پینے ہونگے، پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں کے ساتھ بات کرنا ہوگی، باہر بیٹھے لوگ کس وجہ سے ناراض ہے؟ ناراض بلوچوں کے بنیادی حقوق سے انکار کی وجہ سے وہ ناراض ہے آواز اٹھانے والوں کو بھی بندوق اٹھانے والوں کی طرح مارا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور بلوچستان کے لوگوں میں فرق ہے، مذہبی انتہاء پسندوں کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اس نہج پر حالات تک پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اندرونی ہو یا بیرونی ان کے خلاف کارروائی ہوئی؟ بلوچستان کی بات کی جائے تو وہ حقیقت ہے صوبے کے اندر ہوں یا باہر طالبان کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کئے جارہے ہیں تو بلوچستانیوں کے ساتھ بیٹھنے میں کیا ہرج ہے؟ اگر کوئی کسی بھی جرم میں ملوث ہے میں نہیں کہتا کہ وہ سو فیصد صاف ستھرے ہونگے پھر عدالتیں کس لئے بنی ہیں اگر وہ قصور وار ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کئے جائیں اور اگر بے گناہ ہے توچھوڑ دیاجائے ۔

انہوں نے کہاکہ مذاکرات کا ایک دور چلا تھا  2014-15ء میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت تھی اختیارات دیئے گئے تھے مذاکرات کسی حد تک کامیاب ہوئے بات جب یہاں پر آئی تو اسٹیبلشمنٹ نے بات ماننے سے انکار کیا مذاکرات کرنے والے کو مکمل اختیارات دیئے جائیں پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جو بغور جائزہ لیں ۔