سکیورٹی فورسز کے اہلکار سالم کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔لواحقین

694

صبح چار بجے وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار سالم بلوچ کے گھر میں داخل ہوئے۔ پہلے انھوں نے گھر کی تلاشی لی۔ اس کے بعد وہ سالم کو اٹھا کر لے گئے۔‘
’گھر والوں کے پوچھنے پر اہلکاروں نے کہا وہ پوچھ گچھ کے لیے لے کر جا رہے ہیں، پوچھ گچھ کے بعد ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن اب تک معلوم نہیں ہو رہا ان کو کہاں منتقل کیا گیا ہے۔

یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع کیچ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے سالم بلوچ کے چچا زاد بھائی بیبگر امداد بلوچ کا۔

بیبگر بلوچ خود بھی ایک ایسے ہی تجربے سے گزر چکے ہیں۔ گزشتہ سال 27 اپریل کو انھیں سکیورٹی اداروں کی جانب سے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں سالم بلوچ کے کمرے سے اٹھایا گیا تھا۔

بیبگر امداد بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری اغوا نما گرفتاری کے بعد سالم بلوچ نے میری بازیابی کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ ان کی اور دوسرے بلوچ طلباء کی کوششوں سے میں تو بازیاب ہوا لیکن اب سالم خود جبری گمشدگی کا شکار ہوگئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد وہ اور سالم بلوچ پڑھائی چھوڑ کر آبائی علاقے واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاحال ہم نے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا کیونکہ ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

جب ضلع کیچ میں پولیس کے سربراہ محمد بلوچ سے رابطہ کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ پولیس نے اس سلسلے میں کیا تحقیقات شروع کی ہیں تو انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو سے جب اس واقعے کے بارے میں موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سالم بلوچ کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں فوری رہا کیا جائے یا کسی سول عدالت میں پیش کیا جائے۔

بیبگر بلوچ نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 3اور 4 جولائی کی درمیانی شب وردی اور بغیر وردی والے سکیورٹی فورسز کے اہلکار سالم کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔

بی بی سی نے سالم بلوچ کی جبری گمشدگی کے الزامات پر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر سے رابطے کی کوشش کرنے کے علاوہ واٹس ایپ پر پیغامات بھی بھجوائے تاہم تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔

بیبگر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’کسی کی گمشدگی سے اس کے خاندان کے لوگ جس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے۔‘
’سالم کی والدہ، بہنیں اور ہمارے خاندان کے تمام افراد ان کی جبری گمشدگی کے بعد ایک تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔

بیبگر بلوچ نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ بس یہی ہے کہ اگر سالم پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر وہ بے گناہ ہیں توان کو رہا کیا جائے۔ اگر کوئی ملزم ہے اور ان کے خلاف شہادتیں ہیں، تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ لمحہ اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب سالم نے گزشتہ سال مئی میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں میری اغوا نما گرفتاری کو ناکام بنانے کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔‘
’لیکن جب سکیورٹی اہلکار مجھے اٹھا کرلے گئے تواس کے بعد انھوں نے میری بازیابی کے لیے بھرپور تحریک چلائی۔‘
’ان کی اور دوسرے بلوچ طلباء کی کوششوں سے میں تو بازیاب ہوا لیکن اب سالم خود جبری گمشدگی کا شکار ہو گئے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو