اس ملک میں بلوچ ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ والدہ لاپتہ کبیر بلوچ

265

جبری لاپتہ کبیر بلوچ کی والدہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ظلم و جبر اور انسانیت کی تذلیل کی ایک حد ہوتی ہے لیکن پاکستان میں غیر انسانی سلوک اور اجتماعی سزا کا کوئی حد مقرر نہیں بلکہ یہاں ریاستی ادارے انسانوں کی تذلیل کرکے ان کے آنسوؤں اور سسکیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور لاچار و بے بس ماؤں اور بہنوں کو سڑکوں پر آہ و زاریاں کرتے دیکھ کر اُن کے کلیجوں کو شاید ٹھنڈک پہنچتی ہیں۔

“ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ انسان کے پیدا کردہ بچے نہیں ہیں کیونکہ اگر انسان کے بچے ہوتے تو اُن میں ذرا برابر انسانیت ہوتی اور وہ اس طرح بے گناہ معصوم بچوں کو اُن کے ماں، باپ، بہن و بھائیوں سے نہیں چھینتے، ہمارے بچے بے قصور ہے اور اُن کا جرم و قصور صرف یہ ہے کہ وہ بلوچ ہے اور اس ملک میں بلوچ ہونا ہی سب سے بڑا جرم و خطا ہے اور ماؤں نے یہ خطا کی ہے کہ بلوچ بچے جنم دی ہیں، جس طرح ماؤں نے بچے جنتے وقت جس درد و تکلیف سے گزری تھی آج اُن کے بچے سالوں سے جبری لاپتہ ہیں اور مائیں آج بھی اس درد و تکلیف کا شکار ہیں۔”

کبیر بلوچ کی والدہ نے کہا کہ میں یہ درد و اذیت گزشتہ 15 سالوں سے سہہ رہی ہوں، میرے بیٹے کی جبری گمشدگی کو پندرہ سال مکمل ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 27 مارچ 2009 کو خضدار سیشن کورٹ کے احاطے اور مین ہائی وے سے میرے بیٹے کبیر بلوچ کو اس کے ساتھی مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کے ہمراہ جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کیا گیا اور اِن پندرہ برسوں میں ہم نے عدالتوں، کمیشنز، جے آئی ٹیز، سمیت انصاف کے دستیاب تمام دروازے کھٹکھٹائے لیکن کسی جگہ سے ماسوائے مایوسی، ناانصافی اور تذلیل کے ہم کچھ نہیں ملا، یہ تمام ادارے مظلوموں کو انصاف دینے کے لئے نہیں بلکہ ظالم کو تحفظ دینے کے لئے وجود میں لائے گئے ہیں اور ظالم اِن اداروں کو اپنے ظلم و ناانصافی کو وسعت دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں کبیر کی ماں ہوں اور میں جانتی ہوں میرا بیٹا بے قصور ہے اور اگر ان سے کوئی جرم ہوتا وہ مجرم ہوتا تو اِن پندرہ سالوں میں ان کا جرم ثابت کرکے انہیں اپنے بنائے ہوئے کسی عدالت میں پیش کرکے اپنی تعزیراتِ پاکستان کے تحت انہیں سزا دلواتے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بے گناہ اور انہیں جبری لاپتہ کرکے ذہنی و جسمانی اذیتیں دینے والے گناہ گار اور مجرم ہیں اور ان کی ایک جرم یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو بلاجواز جبری لاپتہ کئے ہیں اور اُن کی دوسری جرم یہ ہے کہ وہ خاندانوں کو اجتماعی ازیت اور سزا دے رہے ہیں آج وہ طاقتور ہے جتنا ظلم کرسکتے ہیں کرلیں لیکن یہ یاد رکھیں انہیں اپنے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا یہ قدرت کا قانون ہے کہ ہر ظالم اپنی منطقی انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کی تمام اداروں سے لیکر سیاستدانوں اور میڈیا و جرنلسٹس کو بار بار اِن پندرہ سالوں میں اپنے بیٹے کی بازیابی اور انصاف کی فراہمی کے لئے آواز دیتی رہی لیکن کسی نے ہماری آواز پر کان نہیں دھرے اگر میری آواز مہذب دنیا، اقوام اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد اور تنطیموں تک پہنچتی ہے تو میں ایک بے بس اور بے آواز ماں اُن سے اپیل کرتی ہوں کہ میں زندگی کی آخری حصے میں پہنچ گئی ہوں اب مجھ پر رحم کرکے میرے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کو بازیاب کیا جائے تاکہ میں مرنے سے پہلے ایک بار اپنے بیٹے کا دیدار کرسکوں۔