سعودی عرب چین کے ساتھ مزید تعاون کا خواہاں

121

سعودی عرب کے وزیرِ توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان نے اعلان کیا ہے کہ ریاض چین اور سعودی عرب کےبڑھتے ہوئے تعلقات پر مغرب کے شکوک و شبہات کو نظر انداز کرتا ہے۔ سعودی عرب چین کے ساتھ مقابلہ نہیں بلکہ مزید تعاون چاہتا ہے۔

سعودی عرب کےسب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک کی حیثیت سے دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے صارف چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے درمیان ایک بڑا ربط تیل کی وجہ سے ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات میں گرم جوشی کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اور حساس ٹیکنالوجی میں تعاون بھی مزید بڑھا ہے جس پر امریکہ اور مغربی ممالک کو تشویش ہے۔

عرب چین بزنس کانفرنس کے دوران دو طرفہ تعلقات پر تنقید کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا کہ وہ اسے نظر انداز کرتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی کاروباری شخص اس طرف بڑھے گا جہاں مواقع ہوں گے۔

چینی صنعت کار اور سرمایہ کار اس کانفرنس کے لیے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض آئے ہیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے چند دن قبل ریاض کا دورہ کیا تھا۔

تیل کے سودے

سعودی عرب کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے مارچ میں دو بڑے سودے ہونے کا اعلان کیا تھا جو چین میں سعودی عرب کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری تھی جب کہ سعودی عرب اس طرح چین کو سب سے زیادہ خام تیل فراہم کرنے والا ملک بھی بننے جا رہا ہے۔

دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب کے دورے کے بعدیہ سب سے بڑا اعلان تھا۔

چینی صدر نے اپنے ملک کی کرنسی یوآن میں تیل کی تجارت پر زور دیا تھا جو ایک ایسا اقدام ہےجس سے امریکہ کی کرنسی ڈالر کا غلبہ کمزور ہو گا۔

کانفرنس میں سعودی وزیرِ توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا کہنا تھا کہ چین میں تیل کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اس طلب سے کچھ تو حاصل کرنا ہوگا۔

شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ “چین سے مقابلہ کرنے کے بجائے اس کے ساتھ تعاون کریں۔”

دونوں ملکوں کے تعلقات میں اس پیش رفت نے چین اور خلیج کی تعاون کونسل کے درمیان 2004 سے جاری آزاد تجارت کے معاہدے کے لیے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔

سعودی وزیرِ سرمایہ کاری خالد الفالح نے کہا ہےکہ کسی بھی معاہدے کو ایک ایسے وقت میں ابھرتی ہوئی خلیجی صنعتوں کا تحفظ کرنا ہو گا جب خطہ محض تیل کی برآمدات پرانحصار کی جگہ، متنوع اقتصادی شعبوں کی طرف جانے کا آغاز کر رہا ہے۔

خالد الفالح کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اپنی صنعتوں کو برآمد کرنے کے قابل اور با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ تمام ملک جو آزاد تجارت کے معاہدوں کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ اس سے واقف ہیں کہ ہمیں اپنی نئی، ابھرتی ہوئی صنعتوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔