بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: لاہور میں طلباء کا احتجاج

167

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لاہور کی جانب سے بلوچستان میں حالیہ چند دنوں میں طلباء کی جبری گمشدگیوں میں اضافے اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف لاہور کے لبرٹی چوک پر ریلی کا انعقاد کیا گیا-

اس احتجاجی ریلی میں بلوچ طلباء و طالبات سمیت دیگر افراد نے شرکت کی جبکہ ریلی کے شرکاہ نے ہاتھوں میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ بلوچ طلباء کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھے-

مظاہرین کا اس موقع پر کہنا تھا بلوچستان میں جاری طویل جبری گمشدگیوں کے سلسلے میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے گذشتہ چند روز میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ابتک درجنوں طالب علم و دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں اور کسی کے بارے میں انکے اہلخانہ کو اطلاع نہیں ملی وہ کہاں ہیں اور کس جرم میں اداروں نے انھیں حراست میں لے رکھا ہے-

انہوں نے کہا لاہور میں بیٹھے افراد ہمیں دیکھ لیں اور اندازہ کرلیں اور اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ لیں کہ بلوچ کا مسئلہ ہے کیا، ہمیں پنجاب کے باسیوں کی جانب سے اکثر ایسے سوالات کا سامنا رہتا ہے اب ہم جب یہاں ہر دوسرے روز اپنی ساتھی طالب علموں کی بازیابی کے لئے آکر احتجاج کرتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہونا چاہئے آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے-

لاہور طلباء مظاہرین نے اس موقع پر لاپتہ جاوید بلوچ، مرتضیٰ زہری اور بلوچستان یونیورسٹی سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے سہیل و فصیح بلوچ سمیت دیگر جبری لاپتہ طالب علموں کی بازیابی کا مطالبہ کیا-

طلباء مظاہرین کا کہنا تھا ہم اکثر سنتے ہیں کہا جاتا ہے بلوچوں کو انکے سردار پڑھنے نہیں دیتے لیکن ہم یہاں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں تعلیمی اداروں سے اُٹھا کر سالوں لاپتہ کرنے والے کوئی سردار نہیں بلکہ اٹک، گجرات، فیصل آباد سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں سے بلوچستان آنے والے ایف سی اہلکار ہیں ہمارے اسکولوں کو چھاؤنی بنانے اور تعلیمی اداروں کو کیمپ بنانے والے کوئی سردار نہیں بلکہ فورسز ادارے ہیں-

طلباء کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری نا انصافی کو روک کر بلوچ طلباء پر خوف کا سایہ ختم کیا جائے اور لاپتہ افراد کی بازیابی اور انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانے میں حکومت عدلیہ اور انسانی حقوق کے ادارے اپنا کردار ادا کریں-