نہ ہم بھولینگے نا یہ جنگ بھول پائے گی – ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

618

نہ ہم بھولینگے نا یہ جنگ بھول پائے گی

تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے جنگ زدہ سرزمین پہ میڈیا کے خاموشی کو ظالم کی حمایت قرار دیکر جب مظلوم نے منہ موڑنا چاہا تو صاحبِ عالم چیخ اُٹھے کہ جناب یہ تو ہماری طرح مظلوم ہے، انہیں بھی خطرات موجود ہیں، یہ بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر کی رپورٹنگ کرکے اپنے بچو ں کو یتیم نہیں کر سکتے۔ اور پھر ہم نے مثبت رپورٹنگ کے نام پہ چند ٹولے دیکھے جو شعلوں میں لپٹی بلوچستان کو ترقی کا استعارہ بنا کر پیش کرتے رہے، پھر یہی مثبت رپورٹنگ والے ترقی یافتہ بلوچستان میں آپریشنوں کی پیش کش کرتے ر ہے، ہاں یہ تو پیشکش کرینگے، کیونکہ انکے اپنے گھرآپریشنوں میں نہیں جلے ، انکا کوئی لاپتہ نہیں ہوا، انکے کسی اپنے کو سروں میں گولیاں مار کر شدت پسند کا خطاب نہیں دیا گیا، یہ مثبت رپورٹنگ والے امن کا نعرہ لگا کر جنگ کے میدان سے پیسے بٹورتے رہے اور آج ہم انکی ایک اور نسل دیکھ رہے ہیں، جو ظالم کے ساتھ ملکر کر مظلوم کو ظالم پیش کر رہا ہے۔

یہ انہی لوگوں کی اسکرپٹ ماھل سے پڑھوا کر نشر کر رہے ہیں جنہوں نے اول تو ماھل کو گھر سے جبری طور پر گمشدہ کیا، پھر اسے اس کے بچوں کے سامنے اتنا ٹارچر کیا کہ اسکے کانوں سے خون بہنے لگا، ہفتے بعد عدالت میں پیش کی گئی تو پاؤں لڑکھڑا گئے اور کمرہ عدالت میں بیہوش ہوگئی، ریمانڈ کا سلسلہ اس بنیاد پہ چلتا رہا کہ ثبوت کوئی نہیں ملے اور پھر پریس کانفرنس اور آج یہاں مثبت رپورٹروں کی جانب سے دعوت خصوصی۔۔۔۔ آپکے ساتھ وہاں کیا سلوک ہوا؟ اچھا تھا، میرے ساتھ خاتوں پولیس آفیسر تھے، ۔۔۔۔۔ہمارا مطلب کس طرح پیش آئے ؟ اچھا تھا، میرے ساتھ خاتوں پولیس آفیسر تھے،۔۔۔۔۔ ماھل جس اسکرپٹ کو صحیح طرح سے بیان نہیں کر پارہی اسے سمجھنا تو دور کی بات ہے، ماھل کو جس طرح ایک دہشت گرد پیش کرنے کے لیے میڈیا مثبت رپورٹنگ کر رہی ہے، یہ مثبت رپورٹرز پرسوں لاپتہ ہونے والے ڈاکٹر نبی داد بگٹی سے بھی انٹرویو لے کہ انکے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ انہیں کہاں رکھا گیا؟ انکے ساتھ ڈاکٹر فیاض کو بھی اُٹھایا گیا تھا وہ کہاں ہیں؟ یہ مثبت رپورٹر بلوچستان یونیورسٹی، بیوٹمز ، اور بیوٹیک یونیورسٹی کی دیوالیہ ہونے کی رپورٹنگ کرنے کب جائینگے؟

مثبت رپورٹرز گوادر میں غیر قانونی ماہیگیری، مکران بارڈر اور چاغی کے بارڈر پہ بھتہ خوری اور مزدوروں کے بھوک پیاس سے تڑپ کے مرنے پہ پیکیجز کیوں نہیں بناتے؟ یہ مثبت رپورٹر سوتے سوتے وزیر اعلیٰ بننے والے شخص اور انکے حمایتیوں سے صوبے کی وسائل کے سودے بازی کا کیوں نہیں پوچھتے؟ ہزاروں بلوچ اس وقت لاپتہ ہیں، مسخ شدہ لاشوں کے علاوہ وہاں سے سینکڑوں زندہ بھی لوٹ آئے ہیں، چلیں مثبت رپورٹنگ کریں ان سے پوچھیں کہاں تھے آپ اتنے سال؟ کس تنظیم سے تعلقات تھے؟ ان سے یہ بھی پوچھے کیسا سلوک ہوا آپکے ساتھ؟ اور سامنے سے وہ لوگ جن کے زندہ انگلیوں سے ناخن بھی نکالے گئے ہو وہ بولے اچھا تھا، تب بھی کچھ اچھا نہیں تھا، جبری گمشدگیاں بذات خود غیر قانونی عمل ہیں، چاہے اسکے بعد کسی کو محل میں ہی کیوں نا رکھا جائے۔

اس سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں کہ میڈیا غیر جانبدار ہوتی ہے، اس سامراجی دُنیا میں جہاں انسانی حقوق کے ادارے ازخود جانبدار ادارے ہیں اور یہ جانبداری طاقت کی جانب ہے، تو اس دُنیا میں میڈیا کا غیر جانبدار ہونا دور کی بات ہے، مظلوم قوم کے دانشور جو دُنیاوی اصولوں کی روشنی میں مظلوموں پہ تجزیے کرتے ہیں کہ “ عورتوں کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو” تو وہ بھی ظالم کے حمایتی ہیں، مظلوم کے لیے پہلی اور آخری نعرہ ایک یہی ہے کہ “ظالم جنگ چھوڑ کر ہماری زمیں سے نکل جائے” یہ جنگ جو نافذہے تمام تر جبر کا مرکز یہی ہے” جنگ مسلط کرنے والے ، جنگ سے فائدہ اُٹھانے والے اور جنگ میں ظالم کے بیانیے کو دانستہ پھیلانے والوں کی چلے جانے سے ہی جنگ کا خاتمہ ممکن ہے اور ماھل کے ساتھ ہونے والا سلوک ، ضیا لانگو کی پریس کانفرنس اس بات کا عندیہ ہے کہ شکست خوردہ دشمن جہاں پہلے ویرانوں میں بلوچ خواتین اور بچوں کو لاپتہ کرتے، بمباری میں مارتے اب وہ اس جرم کو سرعام کرنا چاہتے ہیں۔

وہ اپنے جنگی جرائم کو قانونی قرار دیکر انہیں سرزد کرنے پر شاباشی وصول کرنا چاہتے ہے مگر انہیں نہیں معلوم کہ وہ ایک نئی جنگ چھیڑ رہے ہیں، مظلوم کے لیے زندگی جتنی تنگ کی جائے وہ اسے پھلانگنے کی کوشش اتنی تیز کردے گی، بہر حال آنے والے وقت پر آج کے حالات کی پرچھائی ضرور ہوگی اور آج اس جنگ سے فائدہ لینے والوں کے چہرے نہ ہم بھولینگے نا یہ جنگ بھول پائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں