شھید شیرمحمد بلوچ: زندگی اور جدوجہد ۔ باہڑ بلوچ

454

شھید شیرمحمد بلوچ: زندگی اور جدوجہد

تحرير: باہڑ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

9 اپریل 2009 کو واقعہ مرگاپ کی تاریخ بلوچ قوم کے حافظے میں نقش ہوچکی ہے، اُس دن بلوچ رہنماؤں کی شہادت سے بلوچ سیاست میں جو خلا پیدا ہوا وہ آج تک پُر نہ ہوسکا ہے۔ نو اپریل کو مرگاپ میں بی این ایم کے بانی ؤ چیئرمین غلام محمد، بلوچستان میں قومی سیاست کا اہم چہرہ لالا منیر اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد اُن کے پارٹی کے سیاسی محاذ پر سرگرم ترین رہنما شیر محمد بلوچ شہید کردئیے گئے۔

مند، بلوچستان میں حالیہ شورش کا ایک اہم سیاسی اور جنگی محاذ ہے جس کے بے شمار فرزندوں نے قومی جہد کے شمع کو روشن کرنے کے لئے جانیں دی ہیں، شہید شیر محمد بلوچ بھی مند میں پیدا ہوئے اور بلوچ قومی سیاست میں سرگرم رہے۔ نواب اکبر بگٹی کی شھادت کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی اُبھار میں انکا کردار اہم تھا، واجہ غلام محمد سے انکی قُربت تھی اور بی این ایف کے مشترکہ فرنٹ پر وہ سیاست میں سرگرم رہے ہیں ، بی این ایف بلوچ سیاسی تحریک میں ایک اہم سیاسی محاذ تھا اور تحریک کے سارے سیاسی جماعتوں کے یکجائی کو قومی جہد کی ایک بہت بڑی کامیابی تصور کی جانے لگی لیکن بلوچ قومی جماعتیں بی این ایف کے تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکے۔

شیر محمد بلوچ 1971ء کو مند میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم ہائی اسکول مند سے حاصل کی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی فلیٹ فارم سے سیاست کی ابتدا کی، 1986 اور 1987 میں مند زون کے جنرل سیکریٹری اور صدر منتخب ہوئے۔
80 کی دہائی کے آخر میں کراچی منتقل ہوئے۔ نیشنل کالچ کراچی میں تعلیم جاری رکھی اور بی ایس او کے سیاست میں سرگرم رہے، کراچی زون کے جنرل سیکٹری اور صدر کے عہدے پر ہونے کے ساتھ ساتھ بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے رکن ؤ بی ایس او سندھ کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔

طلباء  سیاست سے فراغت کے بعد شہید شیر محمد سیاست کی سرگرمیاں کو برقرار نہ رکھ سکے کیونکہ 80ء کی دہائی کے بعد سے انقلابی پارٹی کا تصور منہدم ہورہا تھا اور 90 کی دہائی میں بلوچ سیاست پاکستان کے پارلیمانی سیاست کی نظر ہوگئی اور قومی جہد کی جگہ مفاداتی سیاست نے لے لی۔

سیاست سے فراغت کے بعد ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے جُڑ گئے اور عملی سیاست سے دور رہے۔ اکیسوی دہائی کے ساتھ ہی نوب خیر بخش بلوچ مری ؤ ساتھیوں نے بلوچ قومی جہد آزادی کی بنیاد رکھی۔ سیاسی محاذ پر ڈاکٹر اللہ نظر نے طلباء سیاست کو پارلیمانی راہداریوں سے نکال کر قومی جہد سے منسلک کیا اور چئرمیں غلام میں نے پہلی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی جو قومی آزادی کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ نواب اکبر خان بھی ماضی کی سیاست کو دفن کرکے قومی سیاست سے منسلک ہوئے، شیر محمد بلوچ بھی حالیہ اُبھار سے متاثر ہوکر سیاست میں دوبارہ فعال ہوئے ۔

شیر محمد بلوچ نے 2005 کو پھر عملی سیاست میں قدم رکھا اور کراچی پریس کلب میں بلوچ سیاست کے قدآور رہنما “شہید اکبر بگٹی” کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے جمہوری وطن پارٹی مین شمولیت اختیار کر کے پارٹی سیاست کا باقاعدہ حصہ بنے، نواب اکبر بگٹی نے
کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شیر محمد بلوچ کی جمہوری وطن پارٹی میں شمولیت کو پارٹی کی فعالیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ جمہوری وطن پارٹی (موجودہ بی آر پی) میں سرگرمیوں کے دوران وہ ایک رہنما کے طور پر ابھرے۔ جمہوری وطن پارٹی میں شمولیت کے وقت ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہوچکے تھے اور نواب صاحب نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری میں آپریشن کے دوران شیر محمد کراچی میں فوجی آپریشن کے خلاف تحریک کی قیادت کرتے ہوئے سرگرم رہے ہیں۔

نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی عوامی مزاحمت کے دوران سرگرم ترین سیاسی کارکنوں میں شیر محمد بلوچ شامل تھے اور 3 دسمبر 2006 کو لیاری کراچی میں عوامی جلسے کے انعقاد کے سلسلے میں شہید غلام محمد بلوچ کے ساتھ موجود تھے کہ بہ قلمِ کامریڈ یوسف کہ ‘ بارش کے سبب جلسے منسوخ ہونے پر شہید غلام محمد، شیر محمد، سلیمان داؤد و ثنا اللہ زھری سے ملاقات کے انتظار میں حیدری فٹبال کلب کلری لیاری میں میں بیٹھے تھے تب 30 سے 40 کے قریب پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور ایجنسیوں کی گاڑیاں پہنچیں اور حیدری فٹ بال کلب کو گھیرے میں لیکر چئرمیں غلام محمد اور شیر محمد کو جبری طور پر اٹھا کر لے گئے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چئرمین غلام محمد بلوچ اور شیر محمد بلوچ کے لئے 10 مہینے شدید احتجاج، بھوک ہرتال و عوامی رد عمل کے بعد انکو بلاخر 20 ستمبر 2007 کو سبی بلوچستان میں ایک جھوٹے مقدمے میں منظر عام پر لایا گیا، ازیت خانوں میں پاکستان کے ریاستی اداروں کی جانب سے ان پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا تھا۔

بلوچ رہنماؤں کی منظر عام پر آنے کی رواداد لکھتے ہوئے یوسف بلوچ  ان پر روا رکھے جانے والے تشدد کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ:  “23ستمبر کو پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی نگرانی میں آپ شہید چیئر مین اور شہید شیر محمد کو خضدار سے کیچ تربت پولیس تھانے لایا گیا۔جب مجھے آپ شہید چیئرمین اور شہید شیر محمد بلوچ کا تربت تھانے میں پہنچنے کی خبر ملی تو میں فوراً شہید رزاق گل بلوچ کے ہمراہ تھانے پہنچ گیا۔آپ دونوں کوتھانے میں دیکھا پہلے پہل تو میں پہچان نہ سکا کیونکہ آپ دونوں کی صحت اس قدر گر چکی تھی کہ پہچاننا مشکل تھا۔آخر کار شہید نے مجھے کہا کہ کہاں کھو گئے ہو تو میرے حواس میرے قابو میں آگئے میں نے کہا کہ معاف کرنا کہ آپ لوگوں کو اس حالت میں پہچاننا مشکل ہورہا تھاکیونکہ آپ دونوں جسمانی لحاظ سے بہت کمزور ہوگئے ہو۔”

یوسف بلوچ نیشنل پارٹی اور پاکستانی پارلیمنٹ کے حواریوں کے اس پروپگنڈے کو بھی پاش کرتے ہیں جو انکے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف کیا گیا۔ شہید شیر محمد بلوچ و شہید غلام محمد بلوچ کو ریاستی ایجنٹ اور ریاستی ڈیل کے نتیجے میں رہائی پانے کا الزام نیشنل پارٹی کے طرف سے لگایا گیا لیکن وقت نے حقیقت سب کے سامنے عیاں کردی اور حق و باطل کا فیصلہ تاریخ کر چکی ہے۔

نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ان کے پوتے نوابزادہ براھمدگ بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کا نام بدل کر بلوچ ریپبلیکن پارٹی رکھا اور نیا آئین متعارف کیا، شیر محمد بلوچ مرکزی کمیٹی کے رکن بنے اور 10 اکتوبر کو کوئٹہ میں بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے پہلے کونسل سیشن میں بطور مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل منتخب کیے گئے۔

شیر محمد بلوچ نے کراچی اور مکران میں بلوچ ریپبلیکن پارٹی کی فعالیت میں اہم کردار ادا کیا اور بلوچستان بھر میں قومی تحریک کے لئے سرگرم رہے۔ آج انہی عظیم لوگوں کی قربانیوں اور جد و جہد کا نتیجہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک اپنی ترقی کے منازل طے کر رہی ہے۔

اس بات سے کوئی زی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک کو پختہ، دور اندیش و تجربہ کار رہنماؤں ؤ کارکنوں کی ضرورت ہے لیکن اسکے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک قربانیوں کا تقاضہ کرتی ہیں اور تحریک و قربانی کے اسی دوہرے سفر میں شیر محمد کو چئرمیں غلام محمد اور لالا منیر کے ساتھ تربت میں 3 اپریل کو کچکول علی ایدووکیٹ کے چمبر سے پاکستان کے ریاستی ایجنسیوں نے جبری گمشدہ کردیا اور ایک ہفتے بعد 9 اپریل 2009 کو تینوں بلوچ رہنماوں کی لاش تربت شھر سے متصل پہاڑی علاقے مرگاپ سے ملیں تھیں۔

شہدائے مرگاپ کے واقعہ کے ساتھ ہی بدنام زمانہ ‘ اٹھاؤ اور پھینکو’ پالیسی کے تحت ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں، عام بلوچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کر کے انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں  اور بلوچستان میں قومی آزادی کے سیاست کی وابستہ جماعتوں کے لئے سیاست کے تمام راستوں کو مسدود کردیا جاتا ہے ۔ بلوچ قومی آزادی کی سیاست جاری ہے لیکن بی این ایم اور بی آر پی میں پختہ ؤ دور اندیش رہنماؤں کی شدید کمی ہے جس سے بلوچ آزادی کی سیاسی محاذ میڈیا کی حد تک محدود ہوچکا ہے جو ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ بلوچ قومی سیاسی محاذ میں چئرمین غلام محمد ، لالا منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ جیسے رہنماؤں کی کمی دہائیوں تک محسوس کی جاتی رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں