بلوچ عورتیں بھی ریاستی عقوبت خانوں میں قید ہیں – ماما قدیر

204

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتال کیمپ کو آج 5002 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او کے سابق چیئرمین مہیم خان بلوچ سمیت دیگر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جب کسی جنگل میں آگ لگتی ہے اور آپ اس کو بجھانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ تمام جنگل کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے، آج بلوچستان میں یہی صورت حال ہے کہ اس لگائی گئی آگ کو بجھانے کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا نہیں تو وہ بھی اس ریاستی جبر سے نہیں بچیں گے ۔

‎انہوں نے کہا کہ آج بلوچ قوم کی خواتین تک ریاستی عقوبت خانوں میں قید ہیں بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کے لوگ اس جبر کے شکار ہیں سب کو بلوچ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں مرد ہے یا عورت یا بوڑھا ہے جوان، طالبعلم سے لیکر اساتذہ غریب سے لیکر امیر سب بلوچ ہونے کے جرم میں بھگت رہے ہیں۔

‎انہوں نے مزید کہا کہ رمضان کے نیک اور بابرکت مہینے میں بھی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رکا نہیں کیچ سے ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ رات گئے گھنہ کے علاقے میں فورسز نے ایک گھر پہ چھاپہ مار کر وہاں عورتوں اور بچوں کو زدکوب کرنے کے بعد دو نوجوانوں صغیر اور طارق کو اٹھا کر جبری لاپتہ کر دیا ہے۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان میں ایک دفعہ پھر جبری گمشدگیوں کے سلسلے میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔