افغانستان چھوڑنے کے اندوہناک فیصلے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ

132

اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کو مقامی خواتین کو تنظیم کے لیے کام کرنے دینے کے لیے قائل نہیں کیا جاسکا تو وہ مئی میں افغانستان سے چلے جانے کا “اندوہناک” فیصلہ لینے کے لیے تیار ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سربراہ آخم اسٹائنرکے مطابق یہ تنبیہ اس وقت کی گئی ہے جب اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے طالبان کے رہنماوں کے ساتھ اس امید میں مہینوں بات چیت کرتے رہے کہ انہیں خواتین کے حوالے سے سخت گیر موقف تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ طالبان حکام نے مقامی خواتین کو اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن چند ہفتے قبل انہوں نے خواتین کو اس بین الملکی تنظیم میں بھی کام کرنے پر پابندی عائد کردی۔

اقوام متحدہ کے افغانستان سے چلے جانے کا یہ اعلان ایسے وقت آیا ہے، جب سن 2023 میں ملک کی دو تہائی آبادی یا 28 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہو گی اور امریکی حکومت نیز جی سیون کے دیگر ارکان نے امداد میں تخفیف کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔

مقامی امدادی ایجنسیوں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی ہے اور ان کے کام کرنے پرپابندی عائد کیے جانے کے خواتین کے لیے امداد پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ طالبان کے حکم کے بعد خواتین کی تعلیم تک بھی رسائی محدود ہو گئی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے تحت 3300افغان ملازمت کرتے ہیں ان میں خواتین کی تعداد 600 ہے۔ لیکن یہ خواتین 12اپریل سے اپنے گھروں تک محدود ہیں جب طالبان نے حکم جاری کیا تھا کہ افغان خواتین اب اقوام متحدہ کے لیے بھی کام نہیں کریں گی۔ اس سے قبل انہوں نے دیگر غیر سرکاری تنظیموں میں خواتین کے کام کرنے پر روک لگادی تھی۔

اسٹینر نے کہا کہ، “یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہم اس وقت جہاں ہیں وہاں سے اقوام متحدہ کے پورے نظام کو ایک قدم پیچھے ہٹانا ہوگا اور وہاں کام کرنے کی اپنی صلاحیت کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ لیکن یہ بنیادی اصولوں اور انسانی حقوق پر بات چیت کے متعلق نہیں ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، “میرے خیال میں اس اندوہناک فیصلے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے، اگر میں تصور کروں کہ اگر اقوام متحدہ کا خاندان آج افغانستان میں موجود نہ ہو تو میرے سامنے لاکھوں نوجوان لڑکیوں، نوجوان لڑکوں، والدین، ماوں کی تصاویر ہوں گی، جن کے پاس کھانے کے لیے خاطر خواہ ضروری چیزیں نہیں ہوں گی۔”

افغان طالبان سے نمٹنے کے لیے تازہ فکر و خیال کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے مشرقی صوبے ننگرہار میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی عائد کرنے پر سخت تشویش کااظہار کیا تھا۔

اسٹینر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی خواتین ملازمین پر اس ماہ مزید پابندیوں کا مطلب ہے کہ ایک بہت ہی بنیادی لمحہ قریب آرہا ہے۔ لیکن ہم اب بھی امید اور توقع کرتے ہیں کہ سمجھداری غالب آجائے گی۔

انہوں نے طالبان کو متنبہ کیا کہ اگر اقوام متحدہ کی خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

افغانستان میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد طالبان نے اپنے سخت گیر قوانین میں نرمی برتنے کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے جلد ہی ماضی کی طرف سخت پابندیاں عائد کردیں۔ عوام اور بالخصوص خواتین کو ان کی انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ حالانکہ ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے بارہا تنبیہ کی ہے کہ اس سے افغانستان کے ضرورت مند عوام تک انسانی امداد کی ترسیل میں پریشانی آئے گی۔