سی ٹی ڈی کے زیر حراست افراد کے اعترافی ویڈیوز – ٹی بی پی اداریہ

492

سی ٹی ڈی کے زیر حراست افراد کے اعترافی ویڈیوز

ٹی بی پی اداریہ

بائیس مارچ کو بلوچستان سول سیکٹریٹ میں وزیر اعلی بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی اور سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی اعتزاز گورائیہ نے ماہل بلوچ کو حراست میں لینے اور الزامات کے حوالے سے پریس کانفرنس کی اور زیر حراست ماہل بلوچ کی اعترافی ویڈیو جاری کی، جس میں ماہل بلوچ نے بی ایل ایف سے وابستگی کا اقرار کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مائل بلوچ کی اہلخانہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ یہ اعترافی ویڈیو جبراً بنائی گئی ہے۔

ماہل بلوچ کا سی ٹی ڈی کے زیر حراست اعترافی ویڈیو بیان پہلی نہیں ہے، دو ہزار پندرہ کو پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک بلوچ مسلح تنظیم کے دو ارکان شفقت رودینی اور ابراہیم نیچاری کو کاروائی کے دوران حراست میں لیا گیا ہے اور مذکورہ افراد سے دوران حراست ویڈیو بناکر اس وقت کے وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کی موجودگی میں کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا لیکن میڈیا کے سامنے اعتراف کے باجود شفقت رودینی اور ابراہیم نیچاری کو مستونگ کے علاقے کانک، کلی کنڈاوا میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔

جنوری دو ہزار اکیس کو مشرقی بائی پاس سے ایگل فورس نے سمیع اللہ پرکانی اور جمیل احمد پرکانی کی گرفتاری ظاہر کی اور عدالت میں پیش ہونے کے باجود جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیئے گئے۔ خاران سے سی ٹی ڈی نے شفقت یلانزئی کو گرفتار کرنے کے بعد دوران حراست اُن کی اعترافی ویڈیو جاری کی جبکہ خضدار سے عبدالمنان اور سرفراز احمد کو جبری گمشدہ کرنے کے بعد ویڈیو جاری کی گئی تھی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کے زیر حراست موجود افراد کی وڈیو میں اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور پاکستان کی عدالتیں بارہا پولیس کے دوران حراست جبراً قلمبند کیئے گئے بیانات مسترد کرچکے ہیں، اس لیئے ایسے ویڈیوز کے اجراء کو پروپگنڈہ تصور کیا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کمیشن پاکستان اور سیاسی ادارے ماہل بلوچ کی طویل حراست پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات میں ریاستی اداروں کی جانب سے ایسے واقعات کے تسلسل کو جاری رکھنے کو بلوچستان کے لئے تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان آزادی کی جدوجہد سے وابستہ تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ بلوچستان حکومت کے سرپرستی میں ایسے واقعات اُن کی غیر سنجیدگی ظاہر کرتے ہیں جو بلوچستان کے جنگ زدہ حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بنیں گے۔