تُرک کہانی جیسا صدیق بلوچ ۔ محمد خان داؤد

429

تُرک کہانی جیسا صدیق بلوچ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ اس ٹرک ڈرائیور جیسا ہر گز نہیں جو اپنا سفر شروع کرتے ہی یہ اعلان کرنا شروع کر دیتا ہے کہ میری گاڑی سے دور ہٹ ہو جاؤ اس میں دھماکے دار مادہ بھرا ہوا ہے جو راستہ بدلنے پر پھٹ جائے گا۔

نہ تو وہ اس کھیت بان جیسا ہے جو اپنی زمیں میں بیج بونے سے لیکر اس فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اب کی بار ہو نہ ہو میری زمیں سے کیڑے ہی پیدا ہونگے

نہ تو وہ اس پادری سا ہے کہ جسے یہ گمان لاحق ہو جاتا ہے کہ اس پو ری دنیا میں بس یہ ہی ایک پارسا ہے

نہ تو وہ اس عابد جیسا ہے جس کے دل میں یہ خیال گھر کر جاتا ہے کہ وہ خدا کے سب رازوں سے واقف ہے اور اپنی موت کے ڈر سے اس سے نیند چلی جا تی ہے

نہ تو وہ اس مالی جیسا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک پودہ بھی نہیں اُگا پاتا اس ڈر سے کہ اگر اس پودے پر پھول کھل گئے اور وہ اس پھول کی حفاظت نہ کر پایا تو خدا کو کیا جواب دے گا؟

نہ تو وہ اس وڈیرے جیسا ہے جواپنے علائقے میں آنکھیں بند اور اپنی حویلی میں آنکھیں کھلی رکھتا ہے جسے یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ اب وہ جنسی حوالے سے بیکار ہے اور اس کی عورتیں حویلی میں رات کے پچھلے پہروں میں کس کس سے مل رہی ہیں؟

نہ تو وہ ملیر کے ان باسیوں جیسا ہے جنہوں نے اپنی زمینیں بحریہ کے ملک ریاض کو کوڑیوں کے دام بیچیں پیسے خرچ کیے اور اب سستے ہوٹلوں میں بیٹھ کر آدھے چائے کے کپ پر مادھو ری کا ننگا ڈانس دیکھ رہے ہیں

وہ تو ان منتخب نمائیندوں جیسا بھی نہیں جو اپنے ٹٹو کمداروں سے سرکار کی خالی زمینوں پر قبضہ کرواتے ہیں اور بہت جلد اپنی بیٹیوں،بیگموں کے ناموں پر الاٹ کر دیتے ہیں

وہ تو اس دہیاتی جیسا بھی نہیں جو مولا سے بارش کی دعائیں کرتا ہے اور جب بارش برسنے لگتی ہے تو اپنی کچی جگی بچانے کی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے

وہ ان موسیقاروں جیسا نہیں جنہیں بس ایک ہی دہن آتی ہے جو دہن بجاتے ہیں اور اپنے بغل سے پوٹلی نکال کر سانپ سامنے رکھ دیتے ہیں اور اس دہن پر وہ سانپ ناچتا رہتا ہے

وہ اس جاگرافی قیدی کی طرح بھی نہیں جو بس ان لیکروں میں ہی اُلجھ کر رہ جاتا ہے جو لکیریں کسی نقشے پر منقسم ہو تی ہیں

پر وہ تو دل اور بس دل کا قیدی ہے

اس کے پاس بڑے نعرے نہیں۔وہ مادرِ وطن نامی کوئی جلسے نہیں کرتا۔اس کا کوئی منشور نہیں۔اس کا پرچم بھی نہیں۔وہ تودل کا موسیقار ہے اور ایسی سیمفنی چھیڑتا ہے کہ دل،دیار دیس ہو جاتا ہے!

اس کا دل پورا دیس ہے۔اور دیس پورا دل!

اگر ایسا نہ ہوتا،تو اس عمر میں وہ پوتوں کے ساتھ نئے نئے کھیل کھیل رہا ہوتا۔یہ تو لکھتا اپنی سوانح عمری جیسا ہر وہ شخص کرتا ہے جو رٹائرڈ ہوتا ہے تو یا تو دیش بھگت ہو جاتا ہے یا ادیب!

پر وہ رٹائرڈ ہونے کے بعد کامریڈ ہوگیا

اور کامریڈ بھی ایسا جسے دھرتی اپنی باہنوں میں لے اور وہ مسکرا اُٹھے!

یہاں لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے پر کسی کو کوئی فکر نہیں،پر وہ دھرتی کا دم گھٹتا دیکھ کر خاموش نہیں

بہت سی کتابیں کیا پراس کے ہاتھوں نے ایک سطرح بھی نہیں لکھی پر اس کے پیروں نے دھرتی کا جنم بچانے کے لیے اتنے سفر کیے ہیں کہ میں اور آپ ان پیری سفری لکیروں کو نہ تو گن سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں۔وہ دھرتی کا دادلہ بیٹا ہے۔وہ دھرتی کا فخر ہے۔وہ دھرتی کا خواب ہے جسے ابھی سابھیا(پورا) بھی ہونا ہے۔وہ اس دھوبی جیسا ہے جس نے بس دھرتی کے درد دھونے کی کوشش کی ہے۔

کوئی جائے اور جا کہ دیکھے کہ ان دردوں کو دھوتے دھوتے اس کے ہاتھ کس قدر زخمی ہو چکے ہیں

گلے پھاڑ نعروں سے لیکر بے ہودہ گانوں پر ناچنا بہت آسان ہے

پر دھرتی کے دردوں کی رفو گیری کرنا بہت مشکل ہے

یہ دھرتی کا رفو گر ہے اور اس نے بس دھرتی کے پھٹے دامن میں پیوند کاری ہی کی ہے

ہماری ایسی آنکھیں ہی نہیں کہ ہم دھرتی کے درد دیکھ سکیں

یہ تو بس اس درویش کی آنکھیں ہیں جو دھرتی کے درد دیکھتا بھی ہے اور ان دردوں کی دوا بھی کرتا ہے

وہ ہو بہ ہو اس تُرک کہانی جیسا ہے،جس کہانی میں جب بھی رائیٹر پنوں پر ”میرا دیس“ لکھتا ہے تو اس جگہ پر پھول کھل اُٹھتے ہیں

اسے دیس سے محبت ہے،اب جہاں جہاں صدیق بلوچ کا نام لکھا جائے گا،وہاں وہاں سرخ پھول کھل اُٹھیں گے،اوپر والی سطرح کو غور سے دیکھیں وہاں پر گلاب کھل آئے ہیں

وہ شخص جو دھرتی جسے دھرتی کا درد دامن گیر ہے

اور وہ شخص جو دھرتی کا آخری مسیحا ہے کیا ہم اس کے لیے کوئی گیت بھی نہیں لکھ سکتے؟جس کی بدولت آج ملیر کی ندی میں بھینسوں کا گوبر نہیں پر تھڈو ڈیم کا پانی ہے اور بہت سا کچرہ نہیں پر پھول کھل رہے ہیں

آئیں اس شخص کے لیے ایسا گیت لکھیں کہ دھرتی شبنمی قطروں سے بھر جائے

اور پھول قطار در قطار اس شخص کو سلامی پیش کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں