عزیز مشکے! ۔ گورگین بلوچ

390

عزیز مشکے! 

تحریر: گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

شعور انسان کی جستجو اور تلاش حق کی باتوں کو سمجھنا اور انہیں خوبصورت شکل دینے کا خوبصورت چہرہ ہے، دیکھیں شعور حقیقت سے وابستہ رکھتا ہے۔ آپ اس طرح شعور کو دیکھ سکتے ہیں یا ایسا میں کہوں کہ اس سال کی مبارکباد اس لیے نہیں کرسکا کہ  مشکے کی آب و ہوا اور تلخ حقیقت نگاری کے بارے میں بلوچ قوم پرستوں کو زیادہ معلوم ہوگا کہ جہاں تحققیات و نصب العین اور بصیرت کا راج رہا ہے لیکن آج وہاں ایک وبا پھیلی ہے جن کے بارے میں شاید آپ کو پتہ ہو کہ دوہزار تیرہ کی زلزلہ کے بعد ہر پہاڑ و جنگل اور سرسبز میدان میں ایک نئی تسلسل جاری رہا، مسلسل قتل و خون ریزی ہوتے رہے، ماؤں کو ہولناک حالات کا پتہ نہ چلا کہ یہ کونسی وبا پھیلی ہوئی ہے جہاں ان کے بچے بغیر کسی جرم کے سنگین ترین حالات کے زد میں آکر شہید ہورہے ہیں اور کہیں پہاڑی سلسلے میں رہنے والے پیر مرد و خواتین روڑوں کے نزدیک بغیر مکان رہنے لگے، فنڈز کے نام پر لوگوں کو کیمپوں میں بلاتے رہے، انہیں وہاں ایک ایک کر کے دو چار پنجابی چادریں دیتے جن پر پنجابی لکھا تھا، لوگوں کو گالیاں دے دے کر پھر انہیں ایسے قطار میں کھڑے کرتے کہ جیسے وہ بیک مانگنے آئے چکے ہیں، اسی دوران انہیں فوج کے منہ سے پنجابی و اردو سے گالیاں سننا پڑا اور گھروں میں آکر تلاشی لیتے رہے۔ یہ وہ باتیں ہیں زلزلہ کے ایک ہفتے بعد مجھے دیکھنے کو ملا۔

ہمارے بچے جو ساتھ یا پندرہ سال کی عمر تک نہیں پہنچے لیکن انہیں اٹھارہ سال کی عمر والی شناختی کارڈ نادرہ سے نکالنا اس لیے پڑا کہ کیمپوں میں مسلسل سزائیں کاٹ رہے تھے اور کبھی کبھی انہیں دو چار دن تک کیمپوں میں ریمانڈ پر جیل میں منتقل کرتے تاکہ وہ فوج کی خوف سے آئندہ بغیر شناختی کارڈ کے کسی جگہ کا سفر نہ کریں۔ لہٰذا تشدد کے دوران بچے یا نوجوان مرد موت کے منہ میں لگ جاتے۔

ہولناک حالات کو دیکھ کر گاؤں اور قصبے کے لوگ دوسرے شہروں میں نکل مکانی کرنے لگے اور بعد ازاں دو تین سالوں تک فوج نے کسی کو نہ آنے دیا اور ناہی جانے دیا وجہ یہ کہ فوج کی حقیقت پورے دنیا کے سامنے فاش ہونے والی تھی کہ بال بال بچ گیا۔ انہیں پتہ تھا کہ عوام کی خاموشی میں ڈر نہیں بلکہ ایک آزادی کا جنون ہے جنہیں بزور قوت دبا کر دکھ دیا گیا ہے۔

ظفر نامی ایک آرمی آفیسر تھا جنہیں عام لوگ ” قصائی” کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ انہوں نے رات کے اندھیرے میں آکر چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھروں اور بستروں سے اٹھاکر لاپتہ کر دیتے اور انہیں جھوٹا الزام لگا کر ان کی لاشیں برآمد ہوتے رہے تھے۔ یہ وہی باتیں ہیں جو ہر فرد کو پتہ ہے کہ کس طرح ظفر نامی پنجابی خونخوار انسان نے وہاں نسل کشی کا ایک نئی لہر اپنایا تھا۔

اسی دوران ایک ریاستی چمچہ بلوچ قوم کا غدار میر علی حیدر آیا جن کے ساتھ اور بھی پارلیمانی سیاست کرنے والے بی این پی اور قدوس کے چمچے ایک ساتھ مل کر دشمن کو مدد کرنے لگے اور بلوچ آزادی پسند تحریک” بی ایل ایف” کے خلاف عوام کو بزور جبر و تشدد احتجاج کیلیے لے آئے اور  لوگوں کو پیسے کی لالچ دے کر انہیں “سرنڈر والی سین” کے ڈرامے میں پیش کرنے لگے۔ اور بعد ازاں چور و قوم کے غدار علیی حیدر اور فوج کے ساتھ ملکر پورے مشکے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو  لوگوں نے اس ظلم و جبر کے خلاف کسی حد آواز بلند کردیا لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے دوسری جگہوں تک وہاں کی صورتحال کا پتہ نہ چل سکا۔

دوہزار انیس سے لیکر دو ہزار بائیس تک لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے نئے حربے استعمال ہونے لگے، لوگوں کو فوجی کیمپوں میں قانونی مقدمہ کے نام پر دو تین دن  تک مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے، انہیں خاموش کرنے کیلیے ہمیشہ دھمکی اور گالیاں سننا پڑا، ماؤں اور بہنوں کی فوجی کیمپوں میں منتقل کرنے کی دھمکی روز اؤل سے ہوتے رہے ہیں۔

جس طرح انہوں نے کوہ سفید، کوہ مھری اور باقی پہاڑی علاقے کے رہنے والوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے رہے تھے وہ اسی طرح دوسرے لوگوں کے ساتھ کرنے لگے اور آج بھی یہی انسانی حقوق کی سنگین ترین لہر چل رہی ہے۔

درحقیقت یہ لہر کسی اور شکل اختیار کر چکی ہے جسے ہم دو طبقہ سے واضح کرتے ہیں: ایک نوآبادیاتی فوج جو روز اول سے تشدد اور قتل کرتا آرہا ہے۔ دوسرا جاگیر دار طبقہ جو انگریز سرکار کے بعد پاکسانی فوج نے اپنی نوآبادیاتی نظام کو مزید بہتر بنانے کیلیے استعمال کر رہا ہے۔

یہ دونوں طبقوں کی وجہ سے آج عوام کی جینا حرام ہوچکی ہے۔ فوج ان سرداروں اور نوابوں کو ڈرگز،شراب اور کہیں ایسے جاں لیوا زہریلہ مواد فراہم کرتاہے جو پولیس و لیویز فورس دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ پاکستانی آرمی خود بی این پی اور بی اے پی کے ساتھ مل کر عوام کے شعور یافتہ نوجوانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ جن جن کے پاس نشے کا نام دور تک نظر آرہا تو ظالم پاکسانی فوج کی تشدد و گالیاں ان کے نصیب میں ہیں!پاکستانی آرمی اور یہ نواب و سردار جو ایجنسی کیلیے کام کر رہی ہیں وہ وہاں کہیں پروپگنڈے چلاتے رہے ہیں لیکن پھر بھی ناکام ہیں کیونکہ عوام کو خوب پتہ ہے کہ وہاں سراج و علی جیسے ریاستی کارندے صرف اور صرف عوام کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھیل کر بلوچستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

اب یہ عشقِ شعور و پختگی ہر نوجوان کو ہونا چاہیے کہ مشکے جیسے خوبصورت شہر جہاں لوگوں کے پاس آزادی کی امید بچی ہے، لوگوں کے پاس قوم و دیش کیلیے مر مٹنے کا تجسس رہا ہے وہ اب پورے بلوچستان کے باشندوں کو دکھانے کی ضرورت ہے، اور عوام کی زنجیروں کو دیکھ کر خاموش نہیں ہونا چاہیے۔

آپ کے پاس دو رستے ہیں: قلم یا بندوق کو اٹھائیں۔ اب قوم کی آزادی کیلیے لڑنا سیکھیں جس طرح ڈاکٹر اللہ نزر، ڈاکٹر منان اور باقی مشکے کے با شعور نوجوانوں نے اپنی بلوچ قوم کی آزادی کے خاتر عوام کو اکھٹا کرنے کے بعد وطن کیلیے پہاڑوں کا رخ کرنے لگے۔ سمجھو کہ آج ہوٹل و تجزیاتی مباحثہ کا وقت نہیں کیونکہ جزباتی انداز بیان اور ہوٹل کی ڈسکس سے کچھ حاصل نہیں ہوتے بلکہ مزید نوآبادکاروں کو اپنی قبضہ جمانے کا موقع ملتی رہی گی اور اپنی ہی علاقے سے محروم ہوکر کسی دن دشمن کی جیل میں سکڑ جاؤگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں