ریکوڈک بل: حقوق یا ڈاکہ؟ – ٹی بی پی اداریہ

400

ریکوڈک بل: حقوق یا ڈاکہ؟
دی بلوچستان پوسٹ – اداریہ

چند روز قبل پاکستان کے ایوان بالا (سینٹ) میں ریکوڈک بل پیش کیا گیا، جس کے تحت بلوچستان میں ریکوڈک کے ذخائر اور دیگرمعدنی وسائل کو وفاق کی ملکیت میں دے دیا گیا اور بغیر کسی مخالفت سے اس بل کو منظور بھی کر لیا گیا۔ سینٹ سے ریکوڈک بل منظور کرنے سے پہلے بلوچستان اسمبلی میں اس بل کے حق میں بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت نے قرارداد منظور کی جس کی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام نے مخالفت کی ہے۔

اس بل کو منظور کرنے کا مقصد حکومت پاکستان اور بیرک گولڈکارپوریشن کے درمیان مارچ میں ہونے والے معاہدے کو قانونی شکل دینے اور معاہدے کے خلاف قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش ہے۔ سینٹ سے بل منظور کرنے سے پہلے پاکستان کے سپریم کورٹ نے پاکستان کے وفاقی حکومت اور بیرک گولڈکارپوریشن کے درمیان معاہدے کو شفاف اور قانونی قرار دے چکاہے۔

ریکوڈک منصوبہ اپنے شروعات سے تنازعات کا شکار رہاہے، بلوچستان کے لوگ ریکوڈک منصوبے کو ایک استحصالی منصوبہ گرانتے ہیں، جس کا فائدہ غیرملکی کمپنیوں اور پاکستان کے وفاقی حکومت کو ہوگی، ریکوڈک سے پہلے سیندک، سوئی گیس سمیت جتنے بھی معدنیات بلوچستان سے نکل رہے ہیں، اُن کا براہ راست فائدہ بلوچوں کے بجائے وقاف پاکستان اور اسکے شراکت دار قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔

پاکستانی آئین کے اٹھارویں ترمیم کے تحت “صوبوں سے نکلنے والی معدنیات صوبوں کے دسترس میں ہونگے کیونکہ زمین صوبے کی ملکیت ہے” لیکن اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں ریکوڈک بل منظور کرنا صوبائی خودمختاری کی عین خلاف ورزی ہے، جو وفاقی اکائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

بلوچستان کے سابق وزیر اعٰلی نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہیکہ دو ہزار بارہ کو اُن کی حکومت اس لئے ختم کی گئی تھی کیونکہ انہوں نے ریکوڈک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پیپلز پارٹی جو اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ لیتا ہے، وہ بھی بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں پاکستان مسلم لیگ نون کے وفاقی حکومت کا ہمرکاب ہے۔

بلوچستان کے لوگ ریکوڈک منصوبے اور ریکوڈک بل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، بلوچستان کے پارلیمانی پارٹیوں اور آزادی کی جدوجہد سے وابستہ اداروں و پارٹیوں نے ریکوڈک منصوبے کی مخالفت کی ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے بلوچستان بھر میں ریکوڈک بل کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہواہے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سوشل میڈیا کیمپئن میں بلوچستان کے ہر طبقہ فکر نے ریکوڈک منصوبے کو ایک استحصالی منصوبہ قرار دیا ہے۔

مارچ کے مہینے میں پاکستان کی وفاقی حکومت اور بیرک گولڈکارپوریشن کے معاہدے کے بعد بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے اتحاد براس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ “ریکوڈک میں بلوچ وسائل کی لوٹ مار کیلئے بیرک گولڈ کارپوریشن کا قابض پاکستان سے معاہدے کو ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور یہ تنبیہہ جاری کرتے ہیں کہ مذکورہ کمپنی ریکوڈک سے دور رہے بصورت دیگر بلوچ وطن اور وسائل کی حفاظت کیلئے براس آخری حدوں تک جائے گی۔”

بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے سمیت جتنے بھی منصوبے شروع ہوئے ہیں اُن سے بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا، بلکہ احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے اور عوام میں اِن منصوبوں کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ عوام کی مرضی ؤ منشاء کے بغیر یہ منصوبے منظور کیئے جاتے رہے تو اِن منصوبوں کے خلاف عوامی مزاحمت میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔ مزید یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ ان عوامی جذبات کا براہ راست فائدہ بلوچ آزادی پسند جماعتوں کو ہوگی کیونکہ ریکوڈک جیسے معاہدے، آزادی پسندوں کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔