بی این ایم کا دسواں کامیاب کونسل سیشن ۔ ڈاکٹر مھروان بلوچ

484

بی این ایم کا دسواں کامیاب کونسل سیشن

تحریر: ڈاکٹر مھروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مہینوں سے انتظار میں تھا کہ بی این ایم کا کونسل سیشن ہونے والا ہے، اور کب ہم اس خوشخبری کو سنیں گے کہ بی این ایم کا کامیاب کونسل سیشن ہوا ہے، آج جب یہ بیان پڑھنے کو ملا اور حلف برداری تقریب میں جب تصاویر دیکھے تو دل انتہائی خوش ہوا کہ بی این ایم کا کامیاب کونسل سیشن باہمی اتفاقیت کی بنیاد پر منعقد ہواہے۔

ویسے تو بلوچ قومی تحریک کے جتنے سپاہی، کارکن، ہمنوا، ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہیں لیکن ان میں کچھ شخصیات اپنی بے بہا قربانیوں اور کارکردگیوں کی وجہ سے دل کی گہرائی میں جگہ بنا لیتے ہیں،

حلف برداری تقریب میں جب آنکھیں درمیان میں ایک تصویر پر پڑی تو خوشی سے میرے آنسو بہنے لگے، کہ درمیان میں کھڑا عظیم شخص باقی کابینہ اور سنٹرل کمیٹی کے دوستوں کو حلف دے رہا تھا، یقیناََ اس کامیاب کونسل سیشن کا کریڈٹ میں اسی شخص کو دینا مناسب سمجھتا ہوں جو قابض پاکستانی فوجی ظلم وبربریت، کارکنوں کے اغواء اور گرفتاری، مکمل طور پر پارٹی لیڈرشپ کو ریاست کی جانب سے لاپتہ کرنے اور شہید کرنے کے دوران پارٹی کو بحرانی کیفیت سے نکال کر پھر سے منظم کرکے ایک مضبوط پہاڑ کا کردار ادا کرکے پھر سے پارٹی کو فعال بنایا، یقیناََ یہ چیئرمین خلیل بلوچ کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ جیسے فقیرانہ مزاج اور قیادت کرنے کی مکمل خوبیوں سے سرشار لیڈر بلوچ قوم کی خوش نصیبی اور خوش قسمتی ہے کہ بلوچ تحریک کی قیادت ان نامسائد حالات میں ایک عظیم شخصیت کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے مضبوط فکر و فلسفے کو بروئے کار لاتے ہوئے دشمن کی تمام پالیسیوں کو ناکام بناکر بلوچ نیشنل موؤمنٹ کو گراؤنڈ میں خاموشی اور انقلابی طریقوں کے مطابق فعال بنایا۔

ویسے تو دشمن اور دشمن کے ہمنواؤں سے بار بار یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ بی این ایم اندر سے دو دھڑوں میں تقسیم ہے اور کچھ لوگ لوبئنگ کر رہے ہیں، یہ خبر ضرور ایک پریشان کن خبر تھی لیکن سیاست میں سیاسی الجھنیں ضرور سر اٹھاتے رہتے ہیں لیکن ان کا کامیاب حل نکالنا لیڈرشپ اور قیادت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کونسے پالیسی اور حکمت عملی کو بروئے کار لاکر پارٹی کو تقسیم ہونے سے بچا کر پھر سے دشمن قوتوں کے ارادوں کو ناکام بنائیں، آج وہ خواب جو دشمن اور انکے ہمنوا دیکھنا چاہتے تھے، چیئرمین خلیل بلوچ کی وسعت نظری، عظیم سوچ اور فلسفے نے انہیں خاک میں ملا دیا، اور قوم کی امیدوں اور امنگوں کا دوبارہ قوت بخشی اور ہمارے وہ نا امیدیاں جو روز بہ روز ابھر رہے تھے، زمین بوس ہوگئے۔

چیئرمین خلیل بلوچ اور انکی قیادت نے نامسائد حالات کا مقابلہ کرنے کے بعد پارٹی قیادت کو اب ایسی قیادت کے حوالے کردیا یقینََا وہ سابقہ قیادت کی طرح سائنسی اور عظیم فکر و فلسفے کی بنیاد پر شہید چیئرمین غلام محمد، شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور بلوچ قوم کی امنگوں سے وابسطہ اس امانت کو ایک امانت سمجھ کر انکی حفاظت کو فرض سمجھ کر شب و روز پارٹی کو گراؤنڈ میں مضبوط کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرینگے، اب یہ مستقبل خود فیصلہ کرے گا، جسطرح چیئرمین خلیل بلوچ اور انکے ساتھیوں نے شہیدوں کی اس امانت کو دل و آنکھ میں جگہ دے کر تمام کھٹن اور مشکل حالات کا جوانمردی سے مقابل کرتے ہوئے پارٹی کو منتشر ہونے سے بچاکر اس امانت کو بی این ایم کے نئے قیادت کے حوالے کر دیا، ڈاکٹر نسیم بلوچ، ماسٹر دلمراد صاحب اور انکے ساتھی بی این ایم کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرینگے۔

سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ نو منتخب کابینہ کے زیادہ تر عہدیدار سابقہ چیئرمین خلیل بلوچ کی قیادت میں رہ چکے ہیں اور ان سے بلوچ قوم کی امیدیں اور امنگیں وابستہ ہیں اب یہ بات ان پر منحصر ہے کہ وہ بلوچ قوم کو کبھی نا امید نہیں کرینگے۔

اس دور میں ریاست اور انکے ہواری پارلیمانی پارٹیوں کی کوشش یہی ہے کہ وہ انقلابی تحریک سے وابستہ تنظیم اور پارٹیوں کو ٹیبل ٹاک پر دعوت دیکر قومی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں ہیں، جسطرح چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے بیانات میں یہ بات واضح کرکے دشمن ریاست کو یہ پیغام دیا کہ بلوچ قومی آزادی اور بلوچستان کی مکمل آزادی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہم اپنے مقصد اور موقف سے دستبردار ہونے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں، جن سے دشمن اور انکے بغل میں پرورش پائے گئے پارلیمانی پارٹی، نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل اور دیگر نام نہاد پارٹیاں کے تمام عزائم اور حربے خاک میں مل گئے کیونکہ ایک پارٹی کا پیغام اور موقف انکے لیڈر کے بیانات کے اندر واضح ہے، چیئرمین خلیل بلوچ کے واضح پیغام نے ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور انکے ہواریوں کو مایوسی میں مبتلا کردیا، یہ بات صاف واضح کہ شہیدوں کے دیئے گئے امانت پر کوئی بھی لیڈر دشمن کے ساتھ ٹیبل ٹاک کرنے کیلئے تیار ہوگا تو بلوچ قوم کو ایسے لیڈر نہ قابل قبول ہیں اور نہ ہی بلوچ قوم ایسے لیڈر کو کبھی برداشت کرے گی۔

بی این ایم کے نومنتخب چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، سیکریٹری جنرل ماسٹر دلمراد بلوچ اور دیگر نو منتخب عہدیداروں کو دل کی گہرائیوں سے مبارک ہو، یقینََا وہ سابقہ قیادت کی طرح شہیدوں کی اس امانت کو بلوچستان بھر میں فعال بنانے کیلئے اہم پالیسیوں کے تحت اپنا کردار ادا کرینگے۔ اور وہ دشمن ریاست اور پارلیمانی پارٹیوں کو یہ پیغام دینگے کہ بلوچ سرزمین کے علاوہ کوئی عظیم شے نہیں جو ہمیں کمپرومائز کرنے پر مجبور کرے۔ ہمارا اصل مقصد بلوچستان کی آزادی ہے، اور بلوچ قوم پر ڈھائے گئے ریاستی ظلم و بربریت کے خلاف پالیسی مرتب کرکے قوم کو ان سے چھٹکارہ دلانا ہے۔

پارٹیاں تب مضبوط ہونگی جب ان میں شامل تمام قیادت ایک دوسرے پر یقین رکھتے ہوئے غیر یقینی کیفیت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، دھڑہ بند اور گروہی زہنیت کو اب سے ختم کرکے پارٹی کی مضبوطی اور قوم کی آزادی کی جدوجہد میں تیزی لانی ہے تاکہ کل کے دن تاریخ انہیں گریبان سے نہ پکڑے۔ تاریخ بے رحم ہے، اگر خدانخواستہ شہیدوں کے فلسفے کو چھوڑ کر ہم اپنے اصل مقصد سے دستبردار ہونے کو تیار ہوئے تو کل کے دن بھیانک ہونگے، تاریخ کی گرفت میں نہ پارٹیاں بچ سکیں گی اور نہ ہی پارٹی میں ایسے زہنیت پر حامل لوگ خود کو بچا سکیں گے۔ یہ وہی قوم ہے جو آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والے جہدکار کو آنکھوں پر بٹھا دینے کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہے، اگر قوم کے امنگوں کے برعکس جو عمل سرزد ہوئے تو ایک دن نہیں بلکہ ایک سیکنڈ بلوچ قوم انہیں پھینکنے میں دیر نہیں کریگی۔

امید ہے کہ بی این ایم کی نئی قیادت حوصلہ بخش قوت کے ساتھ دشمن اور انکے حواریوں کے برعکس پالیسی مرتب کرکے پارٹی کو ہر سطح پر منظم کرنے میں شب روز جد و جہد کرکے قومی امانت کی حفاظت کرنے میں کسی طرح قربانیاں دینے سے دریغ نہیں کرینگے۔ بی این ایم بلوچ شہیدوں کی امانت ہے، بی این ایم کا مقصد بلوچ قوم کی آزادی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں