مولانا ہدایت الرحمن کے دھرنے کا ایک جائزہ ۔ مراد بلوچ

863

مولانا ہدایت الرحمن کے دھرنے کا ایک جائزہ

تحریر: مراد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مولانا ہدایت الرحمن کی مانگ دراصل عوامی ہیں، یہ مانگ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور تنظمیوں کے منشور میں شامل ہیں اور آئین پاکستان میں درج ہیں مگر بلوچستان میں انسانی حقوق مانگنا ایک جرم ہے، بلوچستان اور بلوچوں کو پاکستان میں دوسرے قوموں کے برابر کبھی حقوق نہیں دیئے گئے آواز اٹھانے والوں کو پاکستان کے لیے ایک خطرہ سمجھا گیا اور ان کو پاکستان کا دشمن اور غدار قرار دیا گیا۔

پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا میں ایک ناکام ریاست کے طورپر جانا جاتا ہے، امریکہ، یورپی یونین اور عرب ملکوں نے پاکستانی ریاست سے اپنے تعلقات محدود کر دیئے ہیں اور تعلقات پر نظرثانی کرنے لگے ہیں۔ اب ریاست پاکستان اپنا جھکاو چین کی جانب کرنے لگی ہے اور چین کی نظربلوچستان کے مالامال سرزمین پر لگی ہوئی ہے۔ چین پاکستان سے معاہدہ کر چکاہے کہ بلوچستان میں ہمیں ہر جگہ قدرتی معدنیات نکالنے کی اجازت دی جاۓ اور بلوچستان کے معدنیات کو بغیر حساب وکتاب کے بغیر روک وٹوک سے لوٹ مارکرنے کا موقع دیا جاۓ۔ اس کے بدلے میں پاکستان کے دفاع کے لیے فوجی سازسامان اور پیسہ مہیا کیا گیا۔

اس معاہدے کی خلاف بلوچوں نے آواز أٹھائی تو ریاست پاکستان نے بلوچوں کو اٹھانا اور مارنا شروع کردیا بلوچوں نے پہاڑوں کا روخ کیا اور پاکستان سے ایک مسلح جنگ شروع کی اس جنگ کے دوران پاکستان کی ہزاروں فوجی مارے گئے اور بہت سے چینی انجنیر بھی مارے گئے۔ پاکستانی ریاست نے بلوچستان میں ہر ایک قدم پر ایک فوجی چوکی بنائی ، مگر پاکستانی فوج بلوچ جنگجووں کو روک نہیں سکتے ہیں اور ریاست پا کستان بلو چستان کی تمام سرحدیں مکمل سیل کررہی ہے۔

پاکستانی فوج بلوچوں کے اوپر آخری حد تک ظلم اور زیادتی کررہی ہے۔ مولانا نے پاکستانی فوج کے ظلم وزیادتی کے خلاف بات کی تو بلوچ نے ان کے ساتھ جد وجہد کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کا ساتھ دیا اور اسکے جلسوں اور دھرنوں میں بھر پور شرکت کی بلوچوں نے اسلۓ شرکت کی کہ وہ پاکستانی فوج کے خلاف باتیں کررہاہے۔

مولانا ہدایت الرحمن کی مانگوں کو دیکھا جاۓ تو بلوچ کا بنیادی اور اصل مسئلےکا حل نہیں کیونکہ یہ چند سطحی مانگ ہیں بلوچوں کا بنیادی مانگ ایک آزاد وطن ہے۔ مولانا پاکستان کے فوج کے خلاف تو باتیں کرتے ہیں مگر پاکستانی ریاست کے خلاف کم بولتے ہیں ایک اور بات کے فوج کی خاص بندے مولانا کے دہرنے میں آکر فوج کو بھی گالیاں دیتے ہیں اور یہ بندے فوج کے خاص اور اہم لوگوں میں سے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس دھرنے کے پیچھے دو باتیں ہیں۔

(1)مولانا ہدایت الرحمن کون ہیں؟ اس کی سیاسی وابستگی کہاں اور کس کے ساتھ ہے؟ سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا ایک عام بلوچ سماجی ورکر نہیں ہیں بلکہ وہ جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں جماعت اسلامی پاکستانی ریاستی اداروں میں سے ایک اہم اوربابھروسہ ادارہ ہے۔ اگر جماعت اسلامی دیکھ رہا ہے کہ بلوچوں کی تحریک آزادی اتنے آگے نکل چکی ہے کہ پاکستانی ریاست اسے نہیں روک سکے اور بلوچستان ایک آزاد ملک بنے تو بلوچستان کی آزادی کے بعدمیرا بھی ا یک سیاسی رول ہونا چاہیئے۔

(۲) ریاست پاکستان نے بلوچوں کی جہد آزادی سے خوف زدہ ہو کر مولانا کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ چند بنیادی حقوق کے حوالے سے دھرنا شروع کرےاور بلوچ عوام کو اپنی طرف راغب کریں تاکہ بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم اور ماما قدیر کی دھرنے سے بلوچ عوام و میڈیا کی توجہ ہٹایا۔

مولانا ہدایت الرحمن ایک سیاسی جوواکھیل رہاہے، ایک طرف بلوچ عوام اور بلوچستان دوسری طرف جماعت اسلامی اور ریاست پاکستان۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں