لاوارث طلباء ۔ محمد عمران لہڑی

370

لاوارث طلباء

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

یہ ایک لاوارث خطے میں چند نوجوانوں کا احتجاجی کیمپ ہے جن کے ساتھ ایک بدمعاش ریاستی ادارہ بنام پاکستان میڈیکل کمیشن(PMC) نے قواعد و ضوابط اور انصاف پر مبنی اصول و عمل کی تمام دیواریں پھلانگ کر طلباء کے مستقبل کے ساتھ گھناؤنی سازش کے تحت کھیل رہی ہے۔ اس خطے کے سارے وزیر،مشیر، ایم پی ایز، ایم این ایز، سینیٹرز، سیاسی لیڈران، قبائلی نمائندگان، سردار، نواب سب کے سب ایک قدرتی حادثے میں مر گئے۔ اب ان مظلوم،لاچار، بے بس قوم کے طلباء کو لاوارث دیکھ کر ملکی ادارے نے بدمعاشی شروع کردی ہے۔ ان کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش ہورہی ہے۔

یہ طلباء بھی کتنے ڈھیٹ اور سخت جان ہیں۔ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود، لیڈران اور نمائندگی سے محروم ہونے کے باوجود اداروں سے انصاف طلب کر رہےہیں۔ بھلا یتیم قوم کا بھی کوئی سنتا ہے؟ اگر کوئی ہمدرد بھی ہے اس خطے میں تو وہ بھی بے چارہ ان طلباء کی منفی درجہ حرارت والے موسم میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 47 روز کے احتجاج کا سن کر شرم سے اندر کی ضمیر کے ہاتھوں سے مر گیا ہوگا۔ ہاں کچھ اردگرد این جی اوز کی طرز کے پارٹی ہیں جن کو کچھ لوگ اپنے سیاسی نمود و نمائش اور زاتی مفادات کے حصول کے لیے چلا رہے ہیں۔

اگر کوئی انسان ان طلباء کے مسائل کو سن لے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ پی ایم سی نے ناجائز اور ناانصافیوں کے تمام حدوں کو پار کردی ہے۔

ان کا مسئلہ اس طرح ہے، بلوچستان میں تین میڈیکل کالجز(لورالائی میڈیکل کالج، جھالاوان میڈیکل کالج، مکران میڈیکل کالج) 2018 میں بحال ہوگئے جن میں داخلہ ٹیسٹ پاکستان کے اعلی تعلیمی ادارہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC) نے منعقد کی۔ جن میں 150 طلباء وطالبات نے کامیاب ہوکر میڈیکل کالجز میں اپنے تعلیم کو جاری رکھا۔ پھر اسی طرح ہر سال ڈیڈھ سو کی بیچ ٹیسٹ پاس کرکے داخل ہوتے گئے۔ یوں بلوچستان کے ان تین میڈیکل کالجز میں طلباء کی تعداد 600 تک پہنچ گئی۔ اب چار سال گزرنے کے بعد پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) نے ایک حکم نامہ صادر کیا کہ ان تمام طلباء سے ایک اسپیشل ٹیسٹ لیا جائے گا۔ ہر ذی شعور انسان کے سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سراسر ناجائز رویہ ہے ان طلباء کے ساتھ۔ ملک کے کسی صوبے کے ساتھ ایسا قانون اور طریقہ نہیں صرف لاوارث بلوچستان کے طلباء کیلئے ایسے قانون بنتے ہیں۔ لکھے پڑھے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریکی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پتہ نہیں اس ملک میں ہمارے طلباء کے ساتھ ایسے رویہ کیوں برتا جا رہا ہے۔

اس سے تو ایک واضح تاثر یہ مل رہا ہے کہ اس ملک میں بلوچ قوم کا کوئی نمائندہ موجود نہیں۔ نہ کسی سیاسی پارٹی میں اتنی جرت ہے کہ ایسے واضح ناانصافی کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھائے اور نہ ہی کسی نام نہاد عوامی نمائندہ سردار نواب میں اتنی ہمت اور غیرت ہو کہ ان طلباء کے ساتھ احتجاجی کیمپ میں بیٹھ جائے۔

ریاستی ناانصافیاں اپنے حدوں کو چھو رہی ہیں۔ آئے روز کے احتجاج، دھرنے، ریلی اور بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچستان کے طلباء کے روز کا معمول بن چکا ہے۔ ان رویوں سے واضح پیغام یہ مل رہا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کیلئے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ صرف اس خطے میں نہیں بلکہ ملک کسی بھی ادارے میں ان پر تعلیم کی دروازے بند کرنے کی حتیٰ الوسہ کوشش ہورہی ہیں۔ حال ہی میں ایک ناگہانی واقعے کے آڑ میں لاہور سے تین طلبہ کو لاپتہ کردیا گیا اور باقی سارے بلوچ طلبہ کو رات کی تاریکی میں ہاسٹلز پر چھاپہ مارکر دھمکایا گیا ڈرایا گیا۔

لیکن ایک حالت ان طلباء کو ان کے جدوجہد میں سرخرو کرے گا وہ ہمیشہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے رہے اور ہر ناانصافی اور ناجائز رویہ کے خلاف ہمت اور حوصلوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہارہیں