سروں کو فخر سے بلند کرنے والا “سربلند ” ۔ کامریڈ سنگت بولانی

533

سروں کو فخر سے بلند کرنے والا “سربلند “

تحریر:کامریڈ سنگت بولانی

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی کے بغیر ہر قسم کی ترقی خوشحالی و آرام دہ زندگی فریب ہے آزادی کبھی بیٹھے بٹھائے تحفے کے طور نہیں ملتی بلکہ یہ جدوجہد کے نتیجے میں ملنے والا ثمر ہے، انسان کا اپنے آزادی کے وصف کی شناخت کا سوال سادہ لیکن گہرا اور پیچیدہ ہے، ایک دفعہ اگر وہ اس سچائی کو پا لے تو دوسری باتیں ثانوی بن جاتی ہیں، آزاد انسان خود سماج کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے اپنا فعال کردار ادا کرتا ہے۔ آذاد انسان پانی کی طرح اپنے راستے کا تعین خود کرتا ہے۔ تاریخ میں ایک آزاد انسان ہی تاریخی کردار ادا کرتے ہیں ۔

میرے فِکر کے ہمنوا، تمہارے اس عظیم فیصلے اور قُربانی پہ کیا لِکھوں کُچھ سمجھ نہیں آرہا کیونکہ تمہارا عظیم کِردار میرے ٹوٹے الفاظ کا محتاج نہیں بس تمہاری یاداشت قلمبند کر رہا ہوں اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو مُجھ جیسے حقیر انسان کو بخش دینا ۔

عمر کا وہ دورانیہ جس میں ایک نوجوان اپنی ذاتی خواہشوں کا پہاڑ لے کر مزے سے گھومتا اور جھومتا ہے، کسی دوشیزہ کے عشق و عاشقی میں اپنا وقت گزارتا ہے اسی دورانیے میں تم ان سب ثانوئی چیزوں بشمول اپنی ذات و آرام دہ زندگی کو ایک سائیڈ رکھ کر ایک عظیم فیصلہ کرتے ہو۔ آفریں ہے تمہیں میرے فکر کے ہمنواء۔۔۔ یہی تو اس قومی جہد کی خوبصورتی ہے کہ ہم خونی رشتوں کو ثانوی کرکے فکری رشتوں کو ان پہ فوقیت دیتے ہیں کیونکہ ہمارا سرمایہ کل ہی یہی فکری رشتے ہوتے ہیں جنہیں نبھاتے نبھاتے ہم امر ہوجاتے ہیں۔

عمر جان پورے ایک سال تم نے ہمارے ساتھ گزارا اس پورے سال کے دورانیے میں میں نے تمہیں بہت قریب سے دیکھا تم اپنے ہم عمر نواجوانوں سے کافی مختلف تھے تمہارے اندر ایک درد چھپا تھا جو تمہارے مسکراہٹ کے پیچھے دکھائی دیتا تھا ۔

تمہیں یاد ہے تم اکثر کہتے پھرتے تھے کامریڈ ماما ایک دن میں بھی ریحان بن کر دشمن پہ ٹوٹ پڑونگا ۔ اور میں ہنس کر کہتا تھا “تم صبح سویرے اٹھنے کی زحمت نہیں کرتے ہو دوپہر کے بارہ بجے نیند سے اٹھتے ہو چلے ہو ریحان بننے۔۔۔

ریحان بننے کے لئیے اسی درد کی ضرورت ہے جسے ریحان نے قریب سے محسوس کرکے اس پر کٹھن حالات میں ایک عظیم فیصلہ لے کر ہمیں مایوسی سے نکال کر قومی تحریک کا رخ موڑ دیا”۔ اس بات کو لیکر میں اکثر تمہیں تنگ کیا کرتا تھا ۔

پھر تم حالات کی وجہ سے دور ہوگئے اور میں اپنا فرض نبھانے محاذ پہ چلا آیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ پھر سے تمہیں دیکھنے کا موقع نہیں مل پائے گا اور نہ ہی میں تم سے بات کر پاونگا یہی درد آج بھی میرے آنکھوں کو نم کر دیتا ہے اور میں اکیلے کسی پتھر پہ بیٹھ کر خوب رو کر دل ہلکا کر لیتا ہوں اور اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ میرا یہ سفر اور سفر میں پسینے سے شرابور جسم میرا یہ جہد تمہارے اس عظیم فیصلے کے سامنے کچھ بھی نہیں، تم جیت گئے کیونکہ عمر کے اس چھوٹے سے دورانیے میں جو تم نے ریحان بننے کا عہد کیا تھا وہ عہد تم نے خندہ پیشانی و ہنستے مسکراتے احسن و بہادری سے وہ فرض تم نے پورا کر دیا جہد کے اس سفر میں تم ہم سے آگے نکل گئے تم جیت گئے عمر جان تمہاری خوشبو اس مٹی میں بکھر کر ہر سو پھیل رہا ہے
تم امر ہوگئے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں