لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ وعدے پورہ کرے ۔ نصراللہ بلوچ

222

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد میں رواں سال فروری میں لاپتہ افراد کمیشن کے سربرہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے دو ملاقاتیں کی، ملاقات میں لاپتہ افراد کے مسئلہ پر بات چیت ہوئی ہم نے کمیشن کے سربراہ سے کہا کہ آپ جب سے کمیشن کے سربرہ مقرر ہوئے ہیں تو آپ کی سربراہی میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی کیسز کی صرف تین دفعہ سماعت ہوئی ہے۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی سربراہی لاپتہ افراد کی کیسز کی سماعت ہو انہوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ لاپتہ افراد کی کیسز کی سماعت انکے سربراہی میں ہوگی۔ اب بلوچستان میں ہماری ملاقات کے بعد چوتھی سماعت انکے سربراہی کے بغیر جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسکے علاوہ ہم نے ان کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ جن لاپتہ افراد کے کیسز میں شواہد زیادہ ہیں ان کیسز کو کمیشن سے خارج کیا جارہا ہے تو انہوں نے ہمیں یقین دھانی کرائی کہ خارج کیے جانیوالے کیسز کے لیے دوبارہ درخواست دی جائے تو انکا اندراج کرکے ان پر دوبارہ کاروائی کی جائے گی تو اس حوالے سے ہم نے علی اصغر بنگلزئی اور ذاکر مجید سمیت دیگر لاپتہ کے کیسز کے حوالے سے درخواستیں دی 5 ماہ ہورہے ہیں لیکن اب تک ان کیسز کو اندراج نہیں کیا گیا

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ اسکے علاوہ کمیشن کے سربرہ کا کہنا تھا کہ انکی لاپتہ افراد کے حوالے سے ملکی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہوئی ہے جس کی بنیاد پر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ہمیں یقین دلایا کہ 2018 سے لاپتہ افراد مارچ تک بازیاب ہونگے یا پھر انکے حوالے سے اہلخانہ کو ‏معلومات فراہم کی جائے گی اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی یا پھر انکے اہلخانہ کو 6 ماہ کے دوران معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی جائےگی۔

انہوں نے کہا کہ اسکے علاوہ لاپتہ افراد کمیشن کی کے اہلکاروں کے رویے اور کارکرگی کے حوالے سے ہماری شکایت کی جواب میں ہم سے وعدہ کیا کہ وہ کمیشن کے نمائندوں کو سختی سے تلقین کرےگا کہ وہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے نرمی اور اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور ساتھ میں ہمیں یہ بھی یقین دھانی کرائی کہ اب پہلے کی طرح سالوں نہیں بلکہ مہینوں میں لاپتہ افراد کی کیسز میں مثبت پیش رفت ہوگی لیکن افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ کمیشن کے سربراہ نے ہم سے جو وعدے کیے اور جو یقین دہانی کرائی اس پر عمل درآمد نہیں کر رہا ہے جسکی وجہ سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ سے گزارش کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے جو وعدے ہم سے کیے ہیں انہیں پورا کرے۔