خاشہ سو جاؤ! – محمد خان داؤد

448

خاشہ سو جاؤ!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ پولیس والا ہوکر بھی فنکار تھا۔اگر وہ پولیس میں نہ ہوتا تب بھی فنکار ہوتا۔ فنکار بس فنکار ہوتا ہے اگر کوئی اسے ملک کے سب سے بڑے منصف پر بٹھا دیتا وہ تب بھی فنکار ہی ہوتا۔فنکار،فنکار جنما جاتا ہے اور فنکار ہی مرجاتا ہے۔ وہ بھی فنکار تھا اور فنکار ہی مارا گیا جی ہاں وہ مرا نہیں وہ مارا گیا پر ویسے بھی فنکار کہاں مرتے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہنر ہوتا ہے اور ہنر کی عمر صدیوں پر محیط ہو تی ہے۔ پر ظالم طالبانوں نے اسے پہلے گھر سے اغوا کیا۔ درخت سے باندھا اور پھر قتل کر دیا۔

خاشہ کی وہ وڈیو جو وائرل ہوئی ہے اور طالبان کی بد نامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ جس وڈیو طالبان کی داڑھیاں اور پگڑیاں جلا رہی ہے، جو ان کے نام نہاد اسلام کو داغ داغ کر رہی ہے، جو وڈیو اسکی پول کو کھول رہی ہے کہ یہ کیسے وحشی ہیں۔ یہ دنیا کو کیا دیں گے؟یہ دنیا کو کیسے نابود کر دیں گے۔اس وڈیو میں خاشہ چلتی گاڑی میں دو طالبان کے بیچ میں بیٹھا ہے اور جب اس کوئی پوچھتا ہے کہ خاشہ کو کہاں سے پکڑا؟ اس سے پہلے کوئی اور جواب دے یا کوئی جھوٹا جواب دے خاشہ اپنے مزاحیہ انداز میں خود ہی جواب دیتا ہے”گھر سے!“

ایک فنکار گھر میں بچوں کے ساتھ یا پنڈال میں ہجوم کے ساتھ ہوتا ہے اس کا کام بندوق،جنگ اور گولی سے نہیں ہوتا،جبھی تو خاشہ افغان پولیس میں ہوکر بھی پولیس میں نہ تھا اور افغان پولیس بھی اسے ایک درویش،فنکار،ہنر مندہی سمجھتی تھی۔ پر ان وحشیوں نے اسے قتل کر دیا۔

اس قتل سے طالبان کی کیا جیت ہوئی کیا ہار؟ اس قتل سے کیا اسلام بلند کیا زوال پزیر؟ اس قتل سے کیا غنی حکومت ڈیہہ گئی ، کیا طالبان سر خرو ہوئے؟اس قتل سے کیا قندھار فتح ہوا کیا جلال آباد؟اس قتل سے کیا کابل پر طالبان قابض ہو گئے؟اس قتل سے کیا سب اگلے پچھلے گناہ معاف ہوئے؟کیا یہ قتل امریکہ کے ہاتھوں ما رے گئے ان سب طالبان کا بدلہ تھا جس کے بعد وہ مارے ہوئے طالبان خوش ہو کر جنت میں جائیں گے؟کیا یہ قتل نیٹو کے منہ پر طمانچہ تھا؟کیا یہ قتل تورہ بارہ کی غاروں پر ما رے گئے امریکن بموں کا بدلہ تھا؟کیا یہ قتل ملا برادران کی جیل میں رہ جانے کا بدلہ تھا؟کیا خاشہ کا قتل فارسی بولی پر پشتو بولی کی حکمرانی جتانے کے لیے تھا؟کیا یہ قتل اس لیے تھا کہ اب کے بعد کوئی قتل نہ ہوگا یا یہ قتل اس لیے تھا کہ اس سے پہلے سارے قتلوں کا بدلہ تھا؟کیا وہ گولیاں خاشہ کو نہیں ما ری گئیں پر بش، اوبامہ،ٹرمپ اوراب جو بائیڈن کو ماری گئی ہیں؟

کیا یہ قتل اس لیے ضروری تھا کہ اگر خاشہ قتل نہ ہوتا تو طالبان کی فتح آدھے میں رہ جا تی؟کیا یہ قتل اس لیے بھی ضرو ری تھا کہ افغان سر زمیں پر فن کی کوئی گنجائش نہیں؟کیا یہ قتل اس لیے بھی ضرو ری تھا کہ طالبان کی دہشت اور وحشت پر اب کوئی اور خاشہ پیدا نہ ہو اور وہ اپنی طنز بھری باتوں میں طالبان کو یہ نہ کہہ سکے کہ
”تم وحشی ہو
تم وحشی تھے
تم وحشی ہی رہو گے“

کیا یہ قتل اس لیے تھا کہ اب کوئی افغان دھرتی پر قابض نہیں ہوگا کیوں کہ ان وحشیوں نے تو ایک درویش فنکار کو بھی نہیں بخشا!کیا یہ قتل اس لیے تھا کہ امریکا اب کوئی گونتو موبے نہیں بنائے گا؟کیا یہ قتل اس لیے تھا کہ امریکا اب کسی بھی طالبان کو بلیک لسٹ نہیں کریگا؟

کیا خاشہ کا قتل اتنا ہی ضر ری تھا کہ اگر وہ قتل نہ ہوتا تو زلمے خلیل زاد ان پگڑی اور داھڑی والے وحشیوں کی وہ باتیں وائیٹ ہاؤس سرکار تک نہیں پہنچاتا جہاں اب ایک اور نئی سازش تیار کی جا رہی ہے اور طالبان کے گلے سے امریکی پٹا کھل رہا ہے
اور وہ بھونک رہے ہیں

انسانوں پر،انسانیت پر،فنکار پر فنکاروں پر۔آوازوں پر،سازوں پر سُروں پر،رنگوں پر،عورتوں پر،تتلیوں پر،شاعری پر،قوص قزا کے رنگوں پر،جوان ہو تی بچیوں پر،علم و قلم پر کتاب و مکتب پر!پھولوں پر خوشبوؤں پر،بارشوں پر بارشوں کے قطروں پر،زندگیوں پر!
کیا خاشہ کا قتل اتنا ہی ضرو ری ہو گیا تھا کہ اس کے بغیر السلامی افغان ریا ست کا پرچم سرنگوں ہی رہتا؟
پر جانے والے جانتے ہیں بھلے وہ کچھ نہ کہیں،وہ کچھ نہ لکھیں پر وہ جانتے ہیں کہ خاشہ کے قتل سے کلمے والا افغانی سفید پرچم خون کے سرخ دھبوں سے لہو لہو ہو گیا ہے
افغان کلمے والا سفید پرچم خاشہ کے قتل پر جھول نہیں رہا پر وہ سرنگوں ہے!
آج وہ سفید پرچم لہو لہو ہے
روئیٹرکے فوٹو جرنلسٹ ان وحشیوں کی گولیوں سے قتل ہوئے جب دنیا فکر مند تو ہوئی تھی
پر اداس نہ تھی
خاشہ کے قتل پر کابل و قندھار کیا
مغرب و مشرق کیا
پر پو ری دنیا اداس ہے
ہاں دنیا اداس ہے
دنیا بھر کا فن اداس ہے
نہ کہیں خوشی کا گیت گایا جا رہا ہے
اور نہ ہی کہیں دکھوں کی سیمفنی چھیڑی جا رہی ہے
اگر کوئی نوحہ ہے تو بس افغان فنکار خاشہ زاوان کا
جسے داھڑی اور پگڑی والوں نے اسلام کے لبادے میں قتل کر دیا
ان وحشیوں کی بندوقیں ویسے تو ہر روز بھونکتی ہیں اور معصوم جانوں کا زیاں ہوتا ہے
جنگ میں خاص کر گوریلا جنگ میں کچھ جائز نہیں سب کچھ جائز ہوتا ہے
پر پھر بھی وہاں فنکاروں کو قتل نہیں کیا جاتا
آج تو ان وحشی بندوقوں نے فنکار کو قتل کیا ہے
پہلے خاشہ زاوان کو گھر سے اُٹھایا پھر اسے درختوں میں باندھ کر قتل کر دیا
ایسے وحشیوں کو کیا کہا جائے؟
یہ نہ مہذہب ہیں اور نہ انسان
پر ہم شہید خاشہ کو تو کہہ سکتے ہیں
”خاشہ!سو جاؤ
جب اُٹھنا جب محشر ہوگی
اور کہنے خدا سے
خداٹھہرو!
مجھے دیکھو میں
میں جو وحشت کی نظر ہوا ہو
مجھے دیکھو
میری وجہ سے تیرا دین خطرے میں تھا؟
اور میں نے اپنے بوڑھے ہو تے جسم پر بھونکتی بندوق کی گولیاں سہی ہیں
خدا!تو ہی جانتا ہے کہ کیسے سہیں ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں