26 جون منشیات کا عالمی دن اور بلوچ معاشرہ – شہے نوتک

411

26 جون منشیات کا عالمی دن اور بلوچ معاشرہ

تحریر : شہے نوتک

دی بلوچستان پوسٹ

منشیات کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسے شخض کا تصور آتا ہے جو کسی کچرے کے ڈھیر میں بے ہوش و ہواس پڑا ہے اور اپنا پورا دن اس گند میں گزار دیتا ہے اسے اپنی جان مال، وسائل اور صبح و شام کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔

یہی شخض بالفرض ہمارا معاشرہ ہے جو ہر طرف سے نشے جیسی لعنت میں گھرا ہوا اور مگر معاشرتی برائیوں سے ایسے بے خبر ہے کہ وہ اپنی زندگی اسی میں گزار دیتا ہے۔ نشہ ناصرف شخصی بلکہ یہ ایک معاشرتی قتل عام ہے ۔

جب فرانس ,افریقہ میں اپنے قدم جما رہا ہوتا ہے تو اسے وہاں کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اسے اپنے قدم جمانے کے لئے سول سوسائٹی میں نشے کی علت کو فروغ دینا پڑتا ہے۔

کالونائز یا قبضہ گیر منشیات کو سوشل کنٹرول ٹول کا نام دیتا ہے۔
‏(Drug a Social Control tool for the colonizer )
ایک افریقی صرب المثل ہے کہ
‏”African child , if you still taking alcohol and drugs , the colonizer is happy, because you have colonized your mind .”
“اے افریقی بچے , اگر تم ابھی تک شراب و نشے کی لت میں ہو تو قبصہ گیر خوش ہے کیوں کہ تم نے اپنے دماغ کو قابض کرلیا ہے “

اگر افریقہ کے تاریک جنگلوں سے نکل کر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں بھی یہ ظلم جاری ہے , ڈیرہ غازی خان سے گوادر جیونی تک آپ کو دنیا کے وہ منشیات ملیں گے کہ جو باقی ماندہ خطوں میں ملنا محال ہیں ۔مگر ان سے کالونئزر کو فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے وہ کالونئزڈ/مقبوضہ خطے کے لوگوں کو قومی کاز سے دور کرتا ہے۔نشے کے عادی شخص کو قوم تو کیا اپنے گھر کی بھی پرواہ نہیں ہوتی ۔

آج بلوچستان کے مشرقی خطے کوہ سلیمان سے کے کر چاغی تک جہاں کہیں بھی تیل گیس یورنیم نکالی جارہی ہے ان کی ملحقہ بستیوں میں آئس , چرس , ہیروئن کا نشہ عام ہونا اور ریاستی اداروں پولیس اور اینٹی نارکوٹکس کی بروقت کروائی نہ کرنا اور منشیات سپلائی کرنے والوں کو مکمل تعاوں فراہم کرنا ,ایک سوالیہ نشان ہے؟

ایسا کیوں ہے؟ فقط انہیں جگہوں پر جہاں سے معدنیات نکالی جارہی ہیں؟ البتہ منشیات کے فروغ سے اس خطے میں اٹھنے والی حقوق یا انقلابی تحریکیں بے حد متاثر ہوتی ہیں ۔ منشیات اس خطے کو مخلتف حصوں میں کاٹ دیتا ہے ایک وہ گروہ جو نشہ بیچتا ہے ایک وہ گروہ جو نشے کا عادی ہے ایک وہ طبقہ جو کسی نہ کسی حوالے سے نشئی یا نشہ بیچنے والوں سے رشتے کی بنیاد پر جڑا ہوا ہے۔

اس پھوٹ سے معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکار ہوتا ہے ، مختصراً یہ کہ منشیات کالونیزر کی طرف سے کسی سوسائٹی کو توڑنے کے لئے استعمال ہونے والا ہتھکنڈہ ہے ۔

پھر اگر مائنر لیول پر دیکھا جائے اس برائی سے دوسری کئی برائیاں جنم لیتی ہیں ایک نشے کا عادی شخص اپنی عادت پوری کرنے کے لئے اپنے سارے وسائل لگائے گا پھر وہ چوری ڈکیٹی جیسے جرم میں گھس جائے گا ۔

2012 میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے پروفیسر روبرٹ بیلانر ( Robert baluner) نے اپنے آرٹیکل میں اس بات کا اظہار کیا کہ کالونیزر دوسرے معاشرے میں ابھرتی سوشلسٹ تحریکوں یا بنیادی حقوق کی موومنٹس کو دبانے کے لئے ڈرگس کا استعمال کرتا یے وہ مثال دیتے ہیں کہ جب امریکن خطہ دو حصوں یعنی افیرو_امریکن اور وائٹ امریکن میں تقسیم تھا اور افیرو_امریکن غلامی سے نجات کے لئے تحریکوں کا حصہ تھے تو ان میں پھوٹ ڈالنے کے لئے منشیات کو استعمال کیا گیا “

آج یہی بلوچستان بھر میں ہورہا ہے کہ وہ خطے جہاں عام انسانی ضروریات کی چیزیں ملنا ناگوار ہیں وہاں منشیات کا ملنا سوالیہ نشان ہے
پرامید عزم کرتے ہیں کہ بلوچ معاشرہ اس برائی سے جلد نجات پالے گا اور اس ہتھکنڈے کو شکست دے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں