ذاکر مجید کے جبری گمشدگی کو 12 سال مکمل، حقپان نے مئی کے مہینے کی رپورٹ جاری کردی

150

 

مئی 2021 کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے فورسز نے چالیس افراد لاپتہ کر دئیے ہیں، جبکہ ستائیس افراد ماورائے عدالت قتل کردئیے گئے۔ حقپان کا مئی کے مہینے کا تفصیلی رپورٹ۔

ہیومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان کے رہنماؤں نے لاپتہ ذاکر مجید کی گمشدگی کو بارہ سال مکمل ہونے پر کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مئی کے مہینے میں بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج سے بارہ سال قبل بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی رہنما ذاکر مجید کو مستونگ سے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے تفتیش کے بہانے گرفتار کرلیا، جِن کا آج تک پتہ نہیں چلا آٹھ جون 2009 کی شام ذاکر کو انکے دو دیگر دوستوں کیساتھ مستونگ سے فوجی اہلکاروں نے سفر کے دوران گرفتار کیا ہے۔ بعد میں انکے دوستوں کو رہا کردیا جاتا ہے۔ذاکر کے خاندان نے پولیس، عدالت اور تمام قانونی اداروں سے رابطہ کیا۔ انکی بہن فرزانہ مجید نے اپنی پڑھائی ترک کرکے اپنی زندگی اپنے بھائی کی تلاش میں وقف کردی۔ کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کیا۔ مگر کچھ بھی بر آور ثابت نہ ہوسکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی ذاکر جان کی بزرگ والدہ ریاست سے سوال کرتی پھر رہی ہے کہ میرا لختِ جگر کہاں ہے؟ کِس حال میں ہے؟ اسکا قصور کیا ہے؟حالانکہ ریاست کے پاس وہ تمام ادارے موجود ہیں جو کسی گناہگار کو سزا دینے کے اہل ہیں۔ پولیس ہے۔ عدالتیں ہیں۔ مگر ذاکر کی جبری گمشدگی میں ذاکر کےساتھ ساتھ اس کے پورے خاندان کی زندگی تہس نہس ہو کر رہ گئی ہے، تاہم ریاست اپنے آپ کو نہ صرف بری الذمہ سمجھ کر اس معاملے پر خاموش ہے بلکہ دوسری طرف ریاستی فوج اور اسکے ادارے، جبری گمشدگی و ماورائے عدالت قتل کرنے کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔

دوران پریس کانفریس مئی کے مہینے میں بلوچستان میں پیش آنے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگی کا تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ مہینے مئی 2021 کے دوران، بلوچستان کے مختلف علاقوں سے چالیس افراد لاپتہ کر دئیے ہیں، جبکہ ستائیس افراد ماورائے عدالت قتل کردئیے گئے۔

یکُم مئی کو، فرنٹ کور کی بھاری نفری نے گھنٹوں تک تربت کے گاؤں کَلَّک کو گھیرے میں رکھا۔ خواتین و بچوں سمیت تمام آبادی گھنٹوں تک محسور رکھا، شہریوں کو ہراساں کیا اور ندیم، نسیم، شوکت اور سعید نامی چار نوجوانوں کو اغواء کرکے لے گئے، جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں۔

دو مئی کو، سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد نے قلات کے علاقے ہربوئی روڈ سے نوجوان فٹبالر، صدام بلوچ کو اغواء کرکے لے گئے۔ یہ تو آپ سب لوگ جانتے ہی ہیں کہ بلوچستان کے چَپّے چَپّے پر ایف سی اور فوج کا کنٹرول ہے اور یہ بات بھی آپ میں سے کسی سے بھی چھپی نہیں ہے کہ یہ سادہ لباس والے نقاب پوش افراد کون ہیں جو اسلام آباد سے لے کر بلوچستان کے دور دراز دیہاتوں تک، کبھی بھی کسی بھی شخص پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

تربت کی تحصیل مند کے گاؤں، مَہیر میں ملٹری کیمپ میں توسیع کی جارہی ہے اور اسکی سیکورٹی کے نام پر، پہلے سے موجود کیمپ کے سینکڑوں اہلکار آئے روز، گاوں کو محاصرے میں لے کر گھر گھر تلاشی لیتے ہیں، مردوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں اور کچھ دن بعد بہت کو زخمی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔

11 مئی کے دن، مہیر گاوں کا ایک چرواہا لطیف ولیداد اپنی بھیڑ بکریاں لے کر قریبی پہاڑی کی طرف گیا اور اسی دوران ایف سی نے اپنی روایتی، وقت بے وقت کا محاصرہ شروع کردیا۔ اور پہاڑ کی چوٹی پر معمور ایک سپاہی نے دور سے چرواہا دیکھ کر اس کو گولی مار دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں زخمی چرواہا، لطیف ولیداد کو ایف سی اہلکار، زخمی حالت میں اٹھا کر لے گئے، جس کا تاحال کسی کو کوئی پتہ نہیں چلا۔

12 مئی ہی کے دن، قلات کے علاقے جوہان میں ایف سی اہلکار آزاد خان عبدالباقی کو اٹھاکر لئے گئے اور وہ آج تک لاپتہ ہے۔

13 مئی کو ایف سی اہلکاروں نے تربت کے گاوں دازن سے تین افراد کو اٹھالیا، جن میں خداداد، صغیر اور طارق شامل تھے۔ خدادا کو انتہائی تشدّد کے بعد رہا کردیا گیا جب کہ باقی دو افراد آج تک لاپتہ ہیں۔

15 مئی کو اسی گائوں میں اے ایف سی اہلکار مجیب بلوچ نامی شخص کو اٹھا لیا جس کا آج تک پتہ نہیں چلا۔

16 مئی کو خاران کے دو رہائشی، تنویر سیاپاد اور صُفیان حسین زئی، ایف سی کی اغواء و گْمشدہ کرنے کی پالیسی کا شکار ہوئے۔

17 مئی کو ایف سی اہلکار، تربت تمپ کے گائوں کوَہاڑ سے دو افراد، بابا عباس اور اصغر کو اغواء کرلیا جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔

19 مئی کو ایف سی اہلکاروں نے تمپ کے گائوں پُلّ آباد کا گھیرائو کیا اور دو بھائیوں، جنید اور شئے حق اور انکے بہنوی، غفور کو اٹھا لیا۔ ایک ہی خاندان کے یہ تین افراد آج تک لاپتہ ہیں اور سارا خاندان آج تک اس قرب میں مبتلاء ہے کہ ان میں سے کوئی زندہ لوٹے گا بھی یا نہیں۔

جب کہ اسی دن ایف سی اہلکاروں نے ضلع سبی کے علاقہ لہڑی گوری سے دو افراد ہوت اور نوکاف ڈومکی کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔

23 مئی کو تربت کے علاقے تمپ کے گومازی گاوں پر، ایف سی اہلکاروں نے دھاوا بول دیا۔ گھر گھر تلاشی لی۔ اور مسلم علی، نایف داد محمد، احسان حمید، ندیم اور کمسن طلال دوست محمد کو اٹھاکر لے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔ ان میں سے طلال دوست محمد 2019 میں بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوچکے ہیں جن کو مہینوں عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔

25 مئی کو انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکار کوئٹہ سے ٹِکٹاکر، سَمیع بلوچ کو اغواء کرکے لے گئے جو تاحال لاپتہ ہے۔

29 مئی سے ایف سی کی بھاری نفری نے پنجگور کے علاقے کیلکور کو مکمل طور پر سیل کر رکھا ہے۔ آنے اور جانے کے تمام راستے بند ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق بھاری تعداد میں لوگوں کو اغواء کیا جاچکا ہے لیکن علاقے سے کسی قسم کا رابطہ تاحال ممکن نہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق تین افراد کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ پانچ افراد کے اغواء کی اطلاعات مل چُکے ہیں، لیکن یہ 28 مئی کے واقعات ہیں، مکمل محاصرے سے ایک دن قبل۔ جب 29 مئی کو علاقے کو گھیرے میں لیا گیا اور تمام راستے اور کمونیکیشن نیٹوَرک بند کر دیئے گئے، اُس دن سے علاقے سے کسی قسم کی اطلاع موصول نہیں ہورہی۔

ماہ مئی میں 27 افراد کو ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ ان میں 19 افراد کو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے چار ناقابلِ شناخت لاشیں بھی موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے دوران پریس کانفرنس صحافیوں سے مخاطب ہوئے کہا کہ حَقپان بلوچستان (ہیومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان) یہ سمجھتی ہے کہ ریاستیں عوام کی حفاظت، ترقی و خوشحالی کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور ایک آئین ہوتا ہے جو کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان رشتے کو مضبوطی کی ضامن ہوتی ہے۔
بلوچستان کو کئی دہائیوں سے مکمل طور پر ایک فوجی و جنگی علاقے میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ یہ اس ملک کی سیاسی طاقت، اپوزیشن ہو یا حکومت، سب کیلئے تشویش کی بات ہونی چاہئے تھی، لیکن بدقسمتی سے اس ملک کی تمامتر سیاسی قیادت بھی اس انتہائی انسانی بحران پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم آپ لوگوں کے توسط سے اس ملک میں موجود تمام میڈیا پرسنز اور اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر اس انسانی بحران کو رپورٹ کریں۔ ہم تمام ملکی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ گذشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے لاپتہ علی اصغر بنگلزئی، بارہ سال سے لاپتہ ذاکر مجید، ڈاکٹر دین جان سمیت تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لائیں اور اگر ان میں سے کسی بھی شخص پر کسی بھی قسم کی غیر قانونی فعل کا الزام ہے تو انہیں عدالتوں پیش کرکے مقدمات دائر کئے جائیں۔ مگر خدارا ان مظلوم خاندانوں کو سالہا سال کی اس ازیت سے نکال دیں۔