گورنر بلوچستان اور وزیراعلیٰ تعصب کی بنیاد پر گوادر یونیورسٹی کے مسائل حل نہیں کررہے ہیں – بی ایس او

186

بی ایس او کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری بالاچ قادر اور دیگر نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے یونیورسٹی میں وائس چانسلرکی تقرری میں تعطل اور دیگر مسائل پر پریس کانفرنس کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی اس پریس کانفرنس کا مقصد سی پیک کا دروازہ اور ترقی کے گیٹ وے کے نام سے مشہور گوادر کے چند اہم تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔

بی ایس او رہنماوں کا کہنا تھا کہ گوادر کو اپنی قدرتی خوبصورتی اور ڈیپ سی پورٹ کی وجہ سے پاکستان سمیت ساری دنیا میں غیرمعمولی اہمیت کا شہر سمجھا جاتا ہے۔گذشتہ ادوار اور موجودہ دور کی حکومت ہمیشہ یہاں ترقی وتبدیلی کے بلندوبانگ دعوے کرتے چلے آرہے ہیں لیکن کسی بھی علاقے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے سب سے ضروری چیز وہاں رہنے والے نوجوانوں کیلئے فنی و سائنسی تعلیم کے اداروں کا قیام عمل میں لاکر ان کو جدید علوم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔مگر گوادر میں ترقی،تبدیلی،اور خوشحالی کے دعوؤں کے باجود یہاں کے نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھنے، طلباء کی ذہنی نشونماء اور جدید تحقیق کی فروغ میں جامعات کا اہم کردار ہے لیکن گوادر جیسا بین القوامی شہرت یافتہ شہر میں اب بھی یہاں کے نوجوان یونیورسٹی سے مستفید نہیں ہورہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں یونیورسٹی آف تربت کی سب کیمپس کی قیام کیلئے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر کی سربراہی میں ہونے والے تربت یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ اجلاس میں 30 اپریل 2015کو ایک پروپوزل ٹیبل کی گئی ۔ 4جولائی 2016کو گورنر بلوچستان اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک نوٹفکیشن کے ذریعے تربت یونیورسٹی کا گوادر میں سب کیمپس کی قیام کا باقائدہ اعلان کردیا جو گوادر کے طلباءکیلئے باعث مسرت بات تھی۔جنوری 2017کو گوادر کیمپس میں باقائدہ کلاسز کا آغاز ہوا اور طلباء نے پھرپور داخلہ لیکر اس بات کا ثبوت دیا کہ گوادر میں اعلیٰ تعلیمی ادارے کا قیام بہت پہلے ناگزیر تھا۔اس وقت گوادر کیمپس میں 500کے قریب وطلباء زیر تعلیم ہیں۔

پریس کانفرنس میں بی ایس او رہنماوں کا کہنا تھا کہ تربت یونیورسٹی گوادر میں صرف چار پروگراموں میں داخلے شروع کئے گئے جس پر ہم نے متعددبار میڈیا اور و دیگر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے گوادر کیمپس میں میرین سائنسز اور کوسٹل بیلٹ کی اہمیت کے مطابق جدید سائنسی علوم کے مضامین میں مزید پروگرام شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ طلباء، یہاں کے لوگوں اور علاقائی نمائندگان کی مطالبات کے بعد حکومت نے گوادر میں سی پیک پروجیکٹ کے تحت ایک فل فلیجڈ یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا جو 2016-17 اور 2017-18کے وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل ہوگیا جس کا باقائدہ سنگ بنیاد اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 1 ستمبر 2016 کو رکھ دیا تھا۔

بلاآخر گوادر یونیورسٹی کا مسودہ بل 2018کو صوبائی وزیر میر ظہور احمد بلیدی نے بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جسے منظور کیا گیا ۔بل کی منظوری کے بعد طلباء میں خوشی کی لہر دوڑی اور اعلیٰ تعلیمی سلسلے جاری رکھنے کی امیدیں مزید تیز ہوگئے۔یونیورسٹی کی عمارت کیلئے پیشکان کے علاقے شابی میں خسرہ نمبر 20-21کے تحت 500ایکڑ اراضی بھی الاٹ کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام تر مرحلے مکمل ہونے اور بل کو منظور ہوئے تین سال گزرنے کے باجود بھی گوادر میں یونیورسٹی کی قیام کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے۔اب صرف گوادر یونیورسٹی کیلئے گورنر بلوچستان کی جانب سے وائس چانسلر کی تقرری کا نوٹفکیشن ہونا باقی ہے لیکن تین سال سے ایک شخص ذاتی انا ،تعلیم دشمنی اور تعصب پرسی کی وجہ سے گوادر یونیورسٹی کیلئے وائس چانسلر کی تقرری نہیں ہوسکی۔ طلبہ کی بارہا طالبوں اور گوادر سے منتخب نمائندگان کی انتھک کوششوں کے باجود بھی گورنر بلوچستان تعصب پرستانہ سوچ اور تعلیم دشمنی سے پیچھے نہیں ہٹھ رہے جو انتہائی تشویشناک اور افسوناک بات ہے۔

جی ڈی اے ڈسٹرکٹ کمپلیکس جسے گوادر یونیورسٹی کا عارضی کیمپس بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دوسری جانب وزیرعلیٰ بلوچستان بھی اپنے اس وعدے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں جنہوں 29ستمبر 2018کو گوادرکیمپس کے طلباء سے خطاب کے دوران یہاں یونیورسٹی کی قیام کو ضروری قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت کی جانب سے ہرممکن کوشش کی یقین دہانی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعلیم دشمنی اور تعصب پرستی کی وجہ سے صوبائی کابینہ میں یونیورسٹی بل کو پیش نہیں کیا جارہا اور گذشتہ تین سال سے صوبائی بجٹ میں گوادر یونیورسٹی کیلئے پیسے شامل نہیں ہوپارہے۔گوادر یونیورسٹی کے کام کو دانستہ طور پر تعطل کا شکار بنادیا گیا ہے جس سے یہاں کے طلباء اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو انتہائی تشوش ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گورنربلوچستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی اس تعلیم دشمن اور تعصب پرستانہ عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے دانستہ طور پر بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے اور ان کیلئے اعلیٰ تعلیمی مواقعوں کے دروازے بندکرنے کی سازش قرار دیتی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت انتہائی تعلیم دشمن حکومت ہے جس کے دور میں بلوچستان کی تعلیمی ترقی کیلئے کوئی بھی اقدامات نہیں کیے جارہے۔وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان شخص کے آبائی علاقے کے بچے اسکول کی چھت سے محروم ہیں۔

حکومت کی ناقص تعلیمی پالیسی اور تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے صوبے کے تمام جامعات مالی دیوالیہ پن کے شکار ہیں۔حکومت بلوچستان میں نئے تعلیمی اداروں کی قیام کے بجائے پہلے ہی سے موجود اداروں کو بند کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مکران، لورالائی اور جھالاوان میڈیکل کالجز کو بلوچستان کے تمام سب کمیپسز فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند ہونے کے دہانے پر ہیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی بھی تعلیمی پالیسی مرتب نہیں کی جارہی۔

بی ایس او رہنماوں کا کہنا تھا کہ آج کی اس پریس کانفرنس کی توسط  سے ہم حکومت کو ان مطالبات کی منظوری پر زور دیتے ہیں کہ گوادر یونیورسٹی کے لئے کیلئے وائس چانسلر، رجسٹرار اور دیگر عملہ کی تقرری عمل میں لایا جائے، گوادر یونیورسٹی کا بل صوبائی کابینہ سے منظور کراکے نوٹفکیشن جاری کیا جائے، صوبائی اور وفاقی پی ایس ڈی پی میں گوادر یونیورسٹی کیلئے فنڈز کا اجراء کیا جائے اور گوادر ماسٹر پلان کے مطابق طے شدہ ایجوکیشنل کمپلکس میں یونیورسٹی کیلئے اراضی مختص کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی ایس او تعلیمی اداروں کو بچانے اور طلباء کی روشن مستقبل کے سامنے آنے والے تمام تعلیم دشمن قوتوں کے خلاف بھرپور جدوجہد کریگی۔  گوادر میں یونیورسٹی کی قیام کو اگر مذید تعطل کا شکار بنایا گیا تو اپنا جمہوری و سیاسی حق کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ کے ساتھ ملکرشدید احتجاج کرینگے۔