فلسطین کا قومی شاعر – واھگ بزدار

203

فلسطین کا قومی شاعر

تحریر: واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

کہا جاتا ہے کہ شاعری خدا کی داد ہے، اس بات میں کتنی صداقت ہے یا نہیں اس بارے میں میرے پاس کوئی ایسا دلیل نہیں جو میں آپ کو دے سکوں لیکن ہاں شاعری زمین یا زمین پر ہونے والے حالات و واقعات کی داد ضرورہے، جس کو اس زمین پر بسنے والے شعور یافتہ اور زمین پر بسنے والے زمین دوست لوگ ہی محسوس کر کے اپنے لفظوں کے ذریعے نسل در نسل منتقل کر کے اپنی تاریخ اور اپنے قوم کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں جس کو پڑھ یا سننے کے بعد ہم کو ان حالات واقعات کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔ جو ادب و قومی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، جن میں شاعر اور شاعری کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔

قومیں ان جیسے عظیم ہستیوں کو موشے لینا روش ،سلمی الخضر الجیوی ،سمیع القاسم ، ڈاکٹر حنان داؤد عشراروی،توفیق زیاد،رفیف ، فیض احمد فیض ،بالاچ ،رحمدل مری،شہید سلمان حمل،مرید بلوچ،واجہ مبارک کازی اور محمود درویش کے نام سے جانتی ہیں۔

واجہ محمود درویش 13 مارچ 1943 کو بروہ نامی گاؤں میں پیدا ہوا جو فلسطین کے ضلع عقہ میں واقع ہے۔ ابھی پانچ سال کی عمر کو پہنچے تھے کہ اس کے گاؤں پر آفتیں نازل ہونے لگی۔ 1948 کا جون کا مہینہ ان کے لئے ظلم اور غلامی والا مہینہ تھا، جب صہیونیوں ، (اسرائیلی) فوج نے ان کے گاؤں پر قبضہ کرلیا اور ان کو علاقہ بدر کر دیا اس دوران ماں نے اپنے سوئے ہوئے لخت جگر کو زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگایا کہ میرے ننھے سے شہزادہ کو کسی دوشمن کی کوئی گولی یا چوٹ نہ لگا جائے جس سے محمود کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس دوران محمود درویش ان تمام حالات و واقعات کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہا تھے۔ اس رات ہزاروں فلسطینیوں کے ساتھ محمود درویش نے اپنی سرزمین کو خیر آباد کہا اور ان کا پہلا قیام لبنان میں پڑا جہاں وہ کچھ وقت کے لئے رہے۔ محمود درویش اس وقت لبنان میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے تھے کہ فلسطین میں اسرائیلی فوج کی جانب سے مردم شماری کا آغاز کیا گیا.ایک سال بعد جب محمود درویش اپنے زمین فلسطین کے زمین پر پہنچے جہاں انہوں نے زندگی کا پہلا سانس لیا تھا جب محمود درویش اپنے گاؤں پہنچے تو وہاں وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پورے گاؤں اور ان کے گھروں پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرلیا تھا.محمود اور اس گھر والے جب فلسطین سے دور پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہا تھے تو اسی دوران اسرائیل فوج کی طرف سے اسرائیل میں مردم شُماری کروائی گئی جس میں محمود درویش کا نام شامل نہ ہوسکا اس وقت سے درویش کو اپنے ہی گھر اور سرزمین پر پناہ گزینوں سے ہی زندگی گزارنا پڑا۔

جب بھی اسرائیلی فوج اس بستی میں آتی تو محمود کو گھر کے پلنگ،غسلخانے، الماری اور کمرے میں چھپایا جاتا تھا کیوں کہ مردم شُماری میں اس کا نام نہیں تھا اس حالات واقعات اور جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنے ہی گھر میں درآمد سے شخص نے شاعری شروع کر دی۔

فلسطین کے اس وقت کے حالات کے حوالے سے ایک شاعر صافی عابدی نے لکھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے

وہ فلسطینی لڑکا خوش نصیب ہو بھی سکتا تھا
گیند کے پیچھے بھاگتا
کھلے آسمان تلے مختلف رنگ اور گلابوں کے خواب دیکھتا
پر اس کے لئے کوئی دعوت نہیں
صرف تابوت ہے اور سڑتے ہوۓ خون کے گند
ہر موڑ پر ایک نکہ بندی اس روکتی ہے
اس کی گیند جاسکتی ہے کسی نئے باشندے کے گھر میں
اپنے ہی دیس میں قید وہ فلسطینی لڑکا
اپنی چھوٹی سی عمر میں
دس گنا بڑھ ہو گیا
اس کا چہرہ کتنا معصوم ہے
پر اسکا دل دکھوں سے بھرا
وہ وہی تھا جب اس کے گھر کو گرایا گیا
اس کی ننھی سی بہن ملبے میں راستہ ڈھونڈتی ہوئی
اس کے والد کے لاش کے ٹکڑے
بس گئے اس کے دل میں
اب وہ جب آواز سنتا ہے
تو صرف اپنی ممتا کی چیخیں

فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو آٹھ برس ہوچکے تھے اور اسرائیلی آرمی کی طرف سے فلسطین کی زمین پر مختلف قسم کے سمینار ،ڈرامہ اور سکول میں مظاہرے کا انعقاد کیا جا رہا تھا تو محمود درویش نے اپنا نام سنا جس میں وہ ایک اسرائیلی بچے سے مخاطب ہوئے کہتا ہے کہ

تمہارے پاس گھر ہے
میرے پاس کیوں نہیں
تم جب چاہو جس طرح چاہو سورج کے نیچے کھیل سکتے ہو
میں کیوں نہیں
خوشی تمہارے لئے
میرے لئے کیوں نہیں

درویش کی تمام شاعری فلسطین کے گرد گھومتی ہے ہر شاعر میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی فوجی کے ظالم ، جبر، اپنے زمین پر ہونے مقامی باشندے کی حالت زندگی کو فلسطین کے اندھے لوگوں اور دنیا کو بتانے کی کوشش کرتی ہیں۔

محمود درویش کی تمام شاعری عربی زبان میں ہے.محمود درویش ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہے ، جو تمام کے تمام ان کی شاعری ہے ان کے شاعری کے مجموعے بہت سے زبانوں میں چھپ چکے ہیں. درویش کی تمام شاعری فلسطین کے گرد گھومتی ہے ہر شاعر میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی فوجی کے ظالم ، جبر، اپنے زمین پر ہونے مقامی باشندے کی حالت زندگی ہےبقول محمود درویش کے میں صرف سوالات کے جوابات دینے کے لئے نہیں لکھتا ہوں بلکہ یہ لکھنے اور لوگوں کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ غلامی اور قبضہ گیریت ہمیں اور ہماری روایات کو کسی بھی صورت میں ختم نہیں کر سکتا ہے اور ہمیں دنیا کی کوئی بھی طاقت انسانیت کے آخری مقام پر جانے سے روک نہیں سکتی جس کی اولین شرط آزادی ہے اور آزادی ہی ہماری شناخت ہے۔

اپنی ایک شاعر میں واجہ لکھتے ہیں کہ یہ زمین میری ماں ،عزت ،سب کچھ اور میری حیات ہے جس کے لئے ہم ہر طرح کے قربانی دینے کو تیار ہیں۔

جس طرح کنفانی نے کہا تھا کہ فلسطین کی آزادی کے لئے ہم اپنے خون سے لکھے گئے اور حقیقت میں فلسطین کے بہادر سپوت نے اپنی خون سے لکھا ہے اور لکھا رہیں ہیں.

بقول محمود درویش کہ قبضہ گیریت ایک دہشگردی ہے اور دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کو جسٹیفائی نہیں کر سکتا.اس حوالے سے وہ لکھتے ہے کہ فلسطین میں بچے پیدا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ اسرائیلی فوج ان کے ماؤں کے سامنے ان کو قتل کر دیں.محمود درویش کی شاعری نے فلسطین کے عوام کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی لوگوں کو مزاحمت کی جانب راغب کیا جس کی وجہ سے محمود درویش کو متعدد بار جیل بھیجا گیا . محمود درویش کی شاعری پر اسرائیل پارلمینٹ میں بھی بحث و مباحثہ ہوا جس کا عنوان شناختی کارڈ تھا جو درویش نے اپنے ہی زمین پر موجود اسرائیلی فوج سے شناخت کرواتے وقت لکھی۔

لکھو لکھو کے میں ایک عرب ہوں
میرا کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے
میرے آٹھ بچے ہیں
نواں آنے والے گرمیوں میں پیدا ہونے والا ہے
ناراض تو نہیں ہو
لکھو کہ میں عرب ہوں
اپنے ساتھیوں کے ساتھ پتھر توڑتا ہوں
پھتر کو نچوڑ دیتا ہوں
روٹی کے ٹکڑے کے لئے
ایک کتاب کے لئے
اپنے آٹھ بچوں کے خاطر
پر میں بھیک نہیں مانگتا
ناک نہیں رگڑتا تمہاری تابعداری میں
ناراض تو نہیں ہو
لکھو کے میں ایک عرب ہوں
ایک نام بغیر کسی ادیکار کے
اس دھرتی پر میری جڑیں بہت گہری ہیں
میں ہل چلانے والے کسان کا بیٹا ہوں
گھاس پھوس کی جھونپڑی میں رہتا ہوں
میرے گہرے کالے بال ہیں اور آنکھیں بھوری
سر پر عربی پگڑی باندھتا ہوں
ہتھیلی پھٹی پھٹی ہیں
تیل اور عجو سے نہانا پسند کرتا ہوں
سب سے اوپر لکھو
مجھے کسی سے نفرت نہیں ہے
میں کسی کو لوٹتا نہیں
لیکن جب بھوکا ہوتا ہوں
اپنے نچوڑنے والوں کو کھا جاتا ہوں
خبردار
میری بھوک سے خبردار
لکھو میں ایک عرب ہوں

اپنی سرزمین پر ذلت ورسوائی کی زندگی گزارنے کے بعد بلا آخر درویش صاحب نے فلسطین کو خیر آباد کہا اور ماسکو چلے گئے اور جلا وطنی کی زندگی اختیار کر لی اور جلا وطن میں بیٹھ کر اپنے لوگوں کے لئے شاعری کی.ان کی ایک شاعری جو ان نے جلا وطنی کے دوران لکھی

جلا وطنی سےخط

معدوم ہوتے ہوئے لفظوں کے درمیان سے گزرنے والو!
تمہاری طرف سے تلوار ،ہماری طرف سے خون
تمہاری طرف سے فولاد
ہماری طرف سے گوشت
تمہاری طرف سے ایک اور ٹینک
ہماری طرف سے پتھر
تمہاری طرف سے آنسو گیس
ہماری طرف سے آنسو اور بارش
ہم پر اور تم پر بھی آسمان
ہمارے لئے اور تمہارے لیے بھی ہوا
اس لئے لے لو ہمارے خون میں سے اپنا حصہ اور چلے جاؤ
جاو چلے جاؤ کسی رقص کی تقریب میں
ہمیں تو آبیاری کرنی ہے
پھول کی ، شہیدوں کی
ہم تو ابھی اور زندہ رہنا ہے
جہاں تک ممکن ہو سکے

درویش کہتا ہے کہ وطن اپنے سرزمین کی مٹی میں دفن ہونے کا نام ہے لیکن غلاموں کو کہاں یہ نصیب ہوتی ہے وجہ درویش 9 اگست 2008 کو ہوسٹن ٹیکساس میں وفات ہوئے وہ ان غلاموں میں اور خوش بخت لوگوں میں سے تھے جن کو اپنی سرزمین میں دفنایا گیا تھا۔

جب اس قومی شاعر کا انتقال ہوا تو اسرائیلی فوج نے روڈ بند کر دیا تھے اور پورے فلسطین میں ناکہ بندی کردیا تھاتاکہ کوئی شخص اس کے جنازے میں نا جاسکے اور ہزاروں جانے والوں کو ذلیل کیا گیا لیکن اس کے باوجود اس قومی شاعر کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
کہا جاتا ہے کہ فلسطین کی تاریخ میں یاسر عرفات کے بعد سب سے زیادہ افراد اس قومی شاعر اور مزاحمت کار کے آخری رسومات میں شامل ہوئے تھے۔

آج بھی محمود درویش کی زمین اور اس کے سپوت اسرائیلی فوج سے جنگ کر رہیں ہیں یہ غلامی کی جنگ اس وقت تک رہے گی جبکہ تک محمود درویش کے تیلی پر سے بوجھ ہٹ نہ جائے یا وطن دشمن کی چنگل سے آزاد نہ ہوجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں