حادثہ – تنویر بلوچ

159

حادثہ

تحریر: تنویر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مستونگ کے رہائشی محمد یوسف دوسروں کے زمینوں و باغات وغیرہ میں کام کرکے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
حسب معمول وہ آج بھی ایک باغ میں اپنے کام میں مصروف تھا گرمی کی شدت سے پورا جسم پسینے سے شرابور تھا، اتنے میں دور سے ایک بچے کی آواز یوسف کو سنائی دی جو اسی طرف آرہا تھا۔ بچے کو جب یوسف نے دیکھا تو دل ہی دل میں دعا کرنے لگا یااللہ خیر کرنا کوئی اچھی خبر لائے، جب وہ بچہ قریب پہنچا تو سانس نہیں لے پارہا تھا شاید گھر سے دوڑتے ہوئے آیا تھا اور باغ (جہاں یوسف کام کرتا تھا) گھر سے کافی دور تھا. یوسف نے بچے سے دریافت کیا خیر ہے مجھے کیوں ڈھونڈ رہے ہو ؟ تو بچے نے جواب دیا مبارک ہو اللہ نے آپکو بیٹا عطا فرمایا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی یوسف نے جیب سے پچاس روپے نکال کر اسے دی اور وہیں سجدہ شکر ادا کرنے لگ گیا۔

یوسف آج بہت خوش تھا اور پورے محلے میں مٹھائی بانٹ رہا تھا
اسکے علاوہ اپنے غیر سارے خوش تھے. دس سال بعد یوسف کے گھر بیٹا پیدا ہوا تھا ۔

ان دس سالوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب یوسف یا اس کی بیوی نے اللہ سے اولاد عطا کرنے کی دعا نہ مانگی ہو۔ ایک دہائی بعد اللہ نے انکی سُن لی اور بیٹا عطا فرمایا
بیٹے کا نام اسد اللہ رکھا گیا .

جب اسد اللہ چھ سال کا ہوا تو یوسف نے گاؤں کے ماسٹر سے کہہ کر اسد کو اسکول میں داخل کروایا . اسکول کا پہلا دن تھا یوسف اور اسکی بیوی بہت خوش تھے، اُنکا بیٹا آج سکول جارہا تھا۔

یوسف نے اپنے بیوی کو مخاطب کرکے کہا کے نہ میں تعلیم حاصل کرسکا نہ ہی تم پڑھی لکھی ہو لیکن ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچے کو پڑھائیں گے اور بڑا ہوکر یہ ہمارے غریبی کے دن دور کریگا علاقے والوں کی خدمت کریگا۔

خیر سال دنوں کے طرح گزرنے لگے اسد نے گاؤں کے سکول سے مڈل پاس کیا مڈل پاس کرنے کے بعد پڑھائی جاری رکھنے کے لیے شال (کوئیٹہ) آنا پڑا۔ کوئیٹہ کے ایک سرکاری سکول سے اسد نے میٹرک پاس کیا میٹرک کے بعد جب اسد کے دوست پرائیوٹ کالجز میں داخلہ لے رہے تھے تو اسد نے فیصلہ کیا کہ کسی گورنمنٹ کالج میں پڑھے گا کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ مہنگے فیس ادا نہیں کرسکتا اس لیے انہوں نے سریاب کے پوسٹ گریجویٹ کالج میں داخلہ لیا .

یہاں سے اس نے ایف ایس سی پاس کیا، اسکے بعد اسد نے یونیورسٹی آف بلوچستان کا رخ کیا تو پتا چلا یہاں فی سمیسٹر فیس بھی غریب کے پہنچ سے دور ہے اور پھر ایک باغ میں کام کرنے والے کے لیے تو بہت زیادہ خیر جیسے تیسے اس نے داخلہ لے لیا ساتھ ہی پارٹ ٹائم کسی دکان میں کام کرکے اضافی خرچ پورا کرنے لگا اسی طرح اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ڈگری ملنے کے بعد اسد نے مقابلے کی امتحان پبلک سروس کمیش پاس کرکے لکچرر منتخب ہوا . آج وہ بہت خوش تھا اس نے اپنے والدین کے خواب کو پورا کیا .

اسد کے ایک دوست نے کہا کے جلدی سے اپنے گھر فون کرکے اپنے والدین کو اپنی کامیابی کا بتا دو لیکن اسد نے کہا نہیں میں وہاں جاکر اُنکو سرپرائیز دونگا۔ شال سے اسد مستونگ کے لئے روانہ ہوتا ہے اور وہاں اس کی شادی کی تاریخ پکی ہوجاتی ہے گھر والے بھی یہی انتظار میں تھے کہ اسد آئے گا تو اُس کو سرپرائیز دینگے .

خیر موسٰی کالونی سے ویگن میں اسد روانہ ہوا آدھے گھنٹے بعد ویگن لکپاس سے گزرا، لکپاس سے گزرتے ہی اگلے موڑ پر مخالف سمت سے آنے والے تیز رفتار کوچ نے اس بدقسمت ویگن کو کُچل ڈالا کئی لوگ موقع پر ہی جانبحق ہوئے تو کئی زخمی۔ ہلاک ہونے والوں میں یوسف کا بیٹا اسد بھی شامل تھا ساری خوشیاں آج غم میں بدل گئے۔

آج پھر خونی شاہراہ نے معصوم لوگوں کی خون سے اپنی پیاس بجھائی جس گھر میں خوشیاں منائی جارہی تھیں، اسی گھر میں قیامت برپا ہوا جب نوجوان اسد کی لاش اُسکی گھر پہنچائی گئی، پورے مستونگ شہر میں صف ماتم بچھ گئی . ہر آنکھ اشک بار تھا۔

جب اسد کے جسد خاکی کو آخری دیدار کے لیے گھر لایا گیا تو یوسف نے بیٹے آخری دیدار کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے جو اسکے آخری الفاظ ثابت ہوئے کہ بیٹا آپ ہی ہماری آخری اُمید تھے، ہم نے تو اپنا پیٹ کاٹ کر تمہیں پڑھایا اتنی بھی کیا جلدی تھی، ہمیں چھوڑ جانے کی اتنے میں یوسف بھی زمین پر گر پڑے ۔

لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی چھڑکا تاکہ وہ ہوش میں آئے مگر یوسف بھی اپنے بیٹے کے پاس پہنچ چکا تھا، اب اسد کے ساتھ اسکے والد لاش اسی گھر سے نکل گئی اور اسد کی والدہ آج بھی ہسپتال کے کسی وارڈ میں پڑی ہوئی ہے ایک زندہ لاش کی صورت میں خونی شاہراہ کئی گھروں کے چراغ گُل کردئیے اسد جیسے کئی نوجوان اس شاہراہ کی نظر ہوگئے ، پر افسوس اس قوم پر کہ یہ قوم لاشیں ضرور اٹھائیگی مگر آواز اٹھانے پر اسے موت پڑتی ہے، ہم بس سوشل میڈیا تعزیت پوسٹ کر کے سمجھتے ہیں فرض ادا ہوگیا۔ ہمیں یہ یاد رکھنی ہوگی اگر آج اسد اس شاہراہ پہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کل کو میں یا آپ بھی ہوسکتے ہیں۔