وہ جفاکش اور خوش مزاج تھا – عائشہ بلوچ

158

وہ جفاکش اور خوش مزاج تھا

تحریر: عائشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ ایک جفاکش اور باوقار شخص تھا، اُسے ہروقت قوم کی فکر تھی، وہ انتہائی انسان دوست تھا، اسکا ہر فیصلہ قابلِ قبول اسلئے نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک بہادر اور جفاکش نوجوان تھا، بلکہ اسلئے کہ وہ ہر وقت سوچ سمجھ کر اپنے رائے کا اظہار کرتا تھا، وہ ہر مسئلے کے بارے میں گہری سوچ میں ڈوبا کرتا تھا، مگر افسوس وہ آج اس دُنیا میں نہیں ہے، کبھی کبھی میں یہ سوچتی ہوں کہ کاش اُس مہربان جیسے دوست، اِس کاروان میں شامل ہوتے تو شاید آج چھوٹی چھوٹی باتوں پہ دوست غصّہ نہیں کرتے وہ ذاتیات تک نہ آ پہنچتے ، وہ ہر وقت اپنے سامنے والے شخص کے ساتھ مسکراتے ہوئے نرم لہجے اور آواز کے ساتھ بات کرتا تھا۔ جب اُسے پتہ چلتا تھا کہ سامنے والا دوست ابھی غصّے میں ہے ، وہ خاموش ہوکر صرف باتوں کو سُنتا رہتا، وہ انسان سے بڑھ کر ایک فرشتہ سے کم نہیں تھا۔ جب سامنے والے شخص کا غصّہ ٹھنڈا ہوتا تب وہ نرم لہجے اور مسکراتے ہوئے اُسے سمجھاتا کہ یہ جو آپ اسطرح سوچ رہے ہو ، یا بات کررہے ہو اگر آپ اُس طریقے کے بجائِے دوسری طرح مسئلے کو دیکھتے یا بات کرتے شاید سب دوست جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ آپکی رائے سُنتے ہوئِے آپکے باتوں اور فیصلوں سے متفق ہوجاتے۔

وہ کہتا تھا کہ جب سامنے والا دوست غصّہ ہو، تو میں اسلئے خاموش ہوکر سُنتا ہوں تاکہ وہ اپنے غصّے پر قابو پاکر اپنا غلطی کو غلطی سمجھ کر اپنے جذبے کو کنٹرول کریں، تو شاید اگلی دفعہ اُسکے اندر باتوں کو سُننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے ، اور میں اسلئے خاموش ہوکر صرف مسکراتا ہوں کیونکہ دوسروں کے جذبے کا احترام کرنا اور دوسروں کی رائے سُننا انسانیت اور قومیت ہے۔ جب میں قوم اور وطن کی آذادی کیلئے نکل کر ایک بڑے کاروان میں شامل ہوں تو آج میں ایک شخص کو برداشت نہ کروں تو آنے والے کل میں اپنا قوم کیسے برداشت کرسکتا ہوں ؟ ابھی تک میرے قوم اور معاشرے میں اتنا شعور نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے دونوں رُخ دیکھ کر فیصلہ کریں یا اپنی رائے کا اظہار کریں ، میں اسلئے دوستوں کے ساتھ اپنے قوم اور سرزمین کے موجودہ صورتحال کے حوالے سے بات کرتا ہوں تاکہ میرے کاروان کے دوست جو ہر وقت میرے ساتھ ہیں وہ اور معاشرہ میرے لکھے ہوئے الفاظ کو پڑھ کر باتوں کو سُن کر خود سوچنے لگیں تو شاید مجھ سے زیادہ وہ سمجھدار ہوکر مسائل پہ غور و فکر کرنے لگیں اور اپنے راستے خود ڈھونڈ کر منزل کی طرف روانہ ہوکر کھٹن راستوں میں ، جنگی حالت میں تکالیف برداشت کر سکیں۔

جس نوجوان کا علم وسیع ہے، اسکے قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ مسائل کو اچھے طریقے سے قلم بند کرکے شائع کریں، جن الفاظ کی وجہ سے قوم کے اندر جذبہ پیدا ہوجائے ، تو اسکا فرض بنتاہے کہ وہ تحریر لکھنے کی کوشش کرکے مسائل کو بیان کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں