اسلام آباد: بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا دھرنا جاری، وزیراعظم عمران خان کے منتظر

600

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ چھ روز سے جاری بلوچ لاپتہ افراد کی لواحقین کا احتجاجی کمیپ اختتام پزیر، لواحقین اور دیگر شرکاء پولیس کا حصار توڑ کر ڈی چوک کے احاطے میں پہنچ گئے جہاں دھرنے جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پریس کلب کے سبزہ زار میں قائم چھ روزہ کمیپ کو آج لواحقین نے ختم کرکے ڈی چوک تک ریلی نکالنے کی کوشش کی تو اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری نے ریلی کے شرکاء کو روکنے کی کوشش کی۔

لاپتہ افراد کی لواحقین سمیت بڑی تعداد میں بلوچ، پشتون اور دیگر طلباء طالبات نے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر آگے پیش قدمی کرتے ہوئے پولیس کی حصار توڑ کر ڈی چوک کے احاطے میں پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔

اس وقت لاپتہ افراد کی لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی پارلیمنٹرین اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء محسن داوڑ، بی این پی مینگل کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی، پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں سمیت پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، عمار علی جان اور دیگر جماعتوں کے رہنماء اور محتلف تعلیمی اداروں کے پروفیسر اور طلباء موجود تھے۔

بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی لواحقین نے ڈی چوک میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے گھنٹوں کا سفر طے کرکے شہر اقتدار میں بھیٹے ہیں تاکہ حکمران نزدیک سے ہماری آواز سن سکیں۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے گذشتہ سال جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے نوجوان محمد حسان اور حزب اللہ قمبرانی کی ہمشیرہ حسیبہ قمبرانی نے اس موقع پر کہا کہ آپ نے فلسطین اور بوسنیا کا نام سنا ہوگا ہم نے بلوچستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، انہوں کہا کہ ہم یہاں سیر و سیاحت کے لیے نہیں آئے ہیں نہ ہمارا کوئی ایجنڈا ہے بلکہ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے آئے ہیں۔

حسبیہ قمبرانی نے کہا کہ ہم نے شورش زدہ بلوچستان میں گولیوں اور بارود میں آنکھیں کھولی ہیں، 2001 سے ہماری نسل کشی ہورہی ہے، استادوں سمیت بچوں تک اٹھائے جاتے ہیں۔  ہم اس ملک کے مسلمان شہری ہیں ہمیں اپنے قانون کے مطابق انصاف فراہم کیا جائے۔

اسلام آباد کے ڈی چوک میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اور نوجوان ہاتھوں میں بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے افراد کی تصاویر اٹھا کر احتجاج کررہی ہیں۔

بلوچستان کے علاقے مشکے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین محمد نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کو جون 2009 کو دوران ڈیوٹی اسپتال سے لاپتہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکمران کہتے ہیں کہ بلوچستان پسماندہ ہے جہاں کے ڈاکٹروں، تعلیم یافتہ لوگوں کو تمہارے ادارے اٹھا کر لاپتہ کرتے ہیں وہاں کیا ترقی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ میرا بچپن پریس کلبوں میں گزرا ہے ہمیں بتایا جائے ہم یتیم ہیں یا ہمارا والد زندہ ہے؟ انہوں کہا کہ اپنے لوگوں کی حقوق کی بات کرنا پاکستان میں جرم بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد کی گمشدگی کے بعد پاکستان میں تین حکومتیں بدل چکی ہیں ہمیں صرف جھوٹی تسلیاں دی جاتی ہیں۔

اسلام آباد کے ڈی چوک پر جاری دھرنے سے طالب علم رہنماء ذاکر مجید کی والدہ راج بی بی ،شبیر بلوچ کی ہمیشیرہ سیمہ بلوچ، نسیم بلوچ کی منگیتر حانی گل اور دیگر لواحقین نے کہا کہ ہم یہاں روڈ، بجلی مانگنے نہیں آئے ہیں بلکہ اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں جو اس ملک کے خفیہ اداروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کیے ہیں۔ اگر ہمارے مطالبات اس ملک کی قانون کے مطابق ناجائز ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ یہاں انسانوں کی سلامتی کی بات کرنا جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے تھے کہ جمہوریت میں لوگوں کو لاپتہ نہیں کیا جاتا آج ہم یہی سمجھیں کہ عمران کی آمریت ہے کہ ہمارے پیارے لاپتہ ہیں۔

دسمبر 2018 میں متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے نوجوان راشد حسین کی والدہ اور بھتیجی ماہ زیب بلوچ بھی اس دھرنے میں شریک ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر کہا کہ راشد حسین کو خلیجی ملک متحدہ امارات سے گرفتار کرکے چھ مہینے بعد پاکستان منتقل کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ریاست راشد حسین کی جبری گمشدگی سے انکاری ہے مگر میڈیا میں ان کو دہشت گرد اور عدالتوں میں اسے مفرور قرار دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے حوالے کیا ہے مگر پاکستان کے پاس راشد کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تو اس لیے وہ راشد کے حراست میں ہونے سے انکاری ہے۔

راشد حسین کی والدہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لیے جو کمیشن بنا ہے یہ صرف ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ جب میں لاپتہ افراد کیلئے بنائے گئے کمیشن میں پیش ہوئی تو انکا رویہ انتہائی سخت اور غیر مناسب تھا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور رکن پاکستان اسمبلی محسن داوڑ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی، پیپلز پارٹی کے رہنماء فرحت اللہ بابر، پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عمار سمیت دیگر نے اس موقع پر کہا کہ بلوچ مائیں بہنیں آج کئی روز سے یہاں سراپا احتجاج ہیں اور ریاست کی بے حسی دیکھیں کہ انصاف کے بجائے نہتے بوڑھے والدین کے سامنے ہزاروں بندوق اور ڈنڈے برداروں کو کھڑا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیے بغیر بلوچستان میں امن قائم کرنا ایک خواب ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا سیاسی مسئلہ کو بندوق سے حل کرنے والے بنگال سے سبق سیکھ لیں تو بہتر ہوگا، طاقت اور بندوق سے بلوچستان کو مشرف فتح نہیں کرسکا تو دوسرے بھی یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔

دھرنے کے دوران لاپتہ جہانزیب قمبرانی کی والدہ بے ہوش کر گئی اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔

آخری اطلاعات تک لواحقین کا دھرنا ڈی چوک میں جاری ہے۔ اس وقت فورسز کی بھری نفری دھرنے کے گرد تعینات کی گئی ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان سے ملاقات کرکے انہیں ان کے پیاروں کے بازیابی کے متعلق یقین دہانی کرائے۔