سندھ کی بے شرم دانش – محمد خان داؤد

159

سندھ کی بے شرم دانش

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

”یہ ٹھنڈے اور اداس دن
بھیگے،نم خوردہ،خوفناک دن
لنگڑے،اپاہج دن
یوں ہی سندھ کی زندگی بیتتی ہے
سندھ کے لیے کٹھن آزمائیشیں ہیں
تکلیف
دل کا رنج
ندامت
پشیمانی
وہ مگن ہیں
ہم رو تے ہیں!“
جب قرت العین حیدر کے ناول ”آگ کا دریا“ کی ہیرون ”چمپا“ کے سارے خواب لُٹے تھے تو ”چمپا“نے یہ دل سوز نظم کہی تھی!
پر ”سندھ“ناول کی کوئی ایک چمپا تو نہیں لُٹی؟وہ تو بہت سی چپمائیں ہیں۔

”آگ کادریا“کے چمپا کا تو ایک کمال ناراض تھا تو چمپا نے ایسی دل سوز نظم کہی!
پر ”سندھ“ناول کے تو کئی ہیرو گم ہیں۔وہ تو اپنی سجنیوں سے ناراض بھی نہیں وہ تو ریاستی دہشت گردی کا شکار ہو کر ان اندھیری کوٹھیوں میں بند ہیں جن کالی کوٹھیوں کے لیے سندھ کے سوچتے دماغ نے سوال اُٹھایا تھا کہ
”ھن بند درن جی پویان چھا آھے؟!“
”ان بند دروازوں کے پیچھے کیا ہے؟“
آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا
ایک کمال کے جانے پر،ایک کمال کے ناراض ہونے پر،ایک کمال کے روٹھ جانے پر ”آگ کا دریا“ نمدوشہود پر آیا،اور آج اتنے عاقب،اتنے راشد،اتنے میں اور اتنے تم گم ہیں پر کوئی ”سندھ“ کا درد نمود شہود پر نہیں آتا؟

ایک کمال کے روٹھ جانے پر آگ کے دریا کو سوز سے بھر دیتا ہے پر آج اتنے پنہوؤں کا کوئی اتا پتا نہیں اور سندھ کے درد کو مزید کوئی درد سے نہیں بھرتا!
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو کچھ سندھ میں سندھ کے باسیوں اور سندھ کے ساتھ ہو رہا ہے ان پر کوئی پھر سے لطیف جنم لیتا اور وہ لطیف پھر سے بباہنگ دہل کہتا
”پنہوں کا پوئے ڈجے باھِ بھمبور کھے!“
”بعد پنہوں کے لگا دو!بھمبور کو آگ!“

پر اب تو کوئی لطیف نہیں،لطیف تو کیا پر اب تو کوئی تمر بھی نہیں،تمر کیا اب تو سب وہ ہیں جو لطیف جیسے کرداروں کو زہر دیتے ہیں اور لطیف اپنی شرم و حیاکو دیکھ کر کوئی بھٹ پر بسیرہ کر لیتا ہے!
اب سندھ میں کون ہے؟اب سندھ کسے اپنے مقدمہ پیش کرے؟اب سندھ کس کے سامنے روئے؟اب سندھ کس کو حالِ دل سنائے؟اور سندھ کس کو وہ ہاتھ دکھائے جو دعا کو نہیں اُٹھتے؟اب سندھ کس کو وہ آنکھیں دکھائے جو بہت رونے سے اندھی ہو رہی ہیں؟اب سندھ کسے پیر دکھائے جن پیروں کو کوئی جوتی نصیب نہیں؟وہ پیر ننگے ہیں،وہ پیر جو زخموں سے شِل ہیں،وہ پیر جو مسافر پیر ہیں وہ پیر جو کراچی سے سندھ کے مقدر کا مقدمہ لیکر کر چلے اور ان پیروں کو اوباوڑو کے اوباش پولیس نے زنجیروں میں جکڑ لیا،وہ پیر جو سندھ کا نصیب ہیں وہ پیر جو سندھ کے کیس کے ترجمان ہیں،وہ پیر جو سندھ پر بیتے ظلم کے آئی وٹنس ہیں!وہ پیر جو سب جانتے ہیں،وہ پیر جو منھ میں زبان نہیں رکھتے،وہ پیر جو دل میں درد رکھتے ہیں،وہ پیر جو مائی کلاچی کی بستی سے بہت سا درد لیے چلے اور گھوٹکی کے سرداروں کی رینج میں بستی اوباوڑو کے اوباش پولیس کی نظر ہوئے۔

وہ پیر جو قصہِ غم ہیں،
وہ پیر جو دردوں سے پُر ہیں
وہ پیر جو زخمی زخمی ہیں
وہ پیر جو قصہِ جدائی ہیں!
وہ پیر جو شازیہ چانڈیو کے ہیں
وہ پیر جو حانی گل بلوچ کے ہیں
وہ پیر جو اماں مختاراں بیگم کے ہیں.
وہ پیر جو سندھ کے انعام کے ہیں
وہ پیر جو سندھ کی اقلیت کے ہیں
اگر وہ پیر سندھ کی اکثیریت کے ہو تے تو سندھ پولیس کی جرئت نہ ہو تی کہ ان پیروں کو قفل زدہ کرتی،
وہ پیر سندھ کے نصیب کے ہیں اسے لیے گم شدہ کر دیے گئے ہیں
اگر وہ پیر بھوتاروں کے ہو تے تو وہ اوباوڑو کی اوباش پولیس ان کو سروں پر رکھتی پر اس وقت سندھ پولیس ان پیروں کو سندھ دھرتی پر بھی برداشت نہیں کر رہی اور پیر ہیں جو زخموں سے چور چور ہیں اور اب یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ پیر کہاں ہیں؟
اب سندھ دھرتی پر نہ تو ان پیروں سے ٹپکتا لہو ہے
اور نہ ہی وہ نشاں جو وہ پیر کلاچی سے چلے تھے تو راہ پر نشاں چھوڑتے چلے تھے
اور اب جب اوباوڑو پہنچے ہیں تو گم کر دیے گئے ہیں۔

سندھ کی دانش ان گھائل پیروں کو دیکھ کر سندھ کیس مضبوط بنیادوں پر پیش کر سکتی ہے اور سندھ کی زخمی کونج جیسی آواز وہاں جاسکتی ہے
جہاں مراد سعید کتوں کی طرح بھونکتا ہے
جہاں پر خالد مقبول صدیقی سازشوں کی مکا ری کرتا ہے
جہاں پر کوئی بوڑھا پیر جوان خوبصورت لڑکی کو تاڑ تا ہے
جہاں پر اسحاق ڈار ماروی میمن سے ایک ارب حق مہر میں شادی کر کے اسے اپنی کیبین میں لے جاتا ہے
جہاں پر آدھی رات کو پارٹی میٹنگوں کے نام پر وہ سب کچھ ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے
اور شیخ رشید بیمار کتے کے جیسے سوتا پڑا رہتا ہے
جہاں سندھ کے بد مست وڈیرے جا کر راتوں کی راتیں ٹھہرے رہتے ہیں
پر ان کے منہ میں زباں نہیں
جہاں پر سنتے ہیں کہ قانون سازی ہو تی ہے
جہاں پر سنتے ہیں کہ ریا ست کی رٹ بحال رہتی ہے
سندھ کی دانش سندھ کی سسیوں کا کیس مضبوط بنیادوں پر بنا کر وہاں تک پیش کر سکتے ہی
پر سندھ کی دانش،بلاول ہاؤس کا در پیٹ رہی ہے
سندھ کی دانش ایاز میلے میں ناچ رہی ہے
سندھ کی دانش ادبی بورڈ میں دھکے کھا رہی ہے
سندھ کی دانش ردی ٹشو پیپر جیسے اخباری اڈیوڑوریل پیچ پر موت رہی ہے
سندھ کی دانش اپنے ڈیپوٹیشن،اور پروموشن کے لیے ان پڑھ اسمبیلی ممبروں کی جوتیاں اُٹھا رہی ہے
جن کے بچے غریبوں کی فُل برائیٹ اسکالر شپ کھا جا تے ہیں
اور باہر جاکر پھر جاہل ہی لوٹتے ہیں
سندھ کی دانش ادبی سنگت کا بچا کچھا رس چس پی رہی ہے
سندھ کی دانش علمی درس گاہوں کی وی سی شپ کے لیے جھک ما ر رہی ہے

سندھ کی دانش بلاول کی واہ واہ کر رہی ہے
سندھ کی دانش جھوٹے پریس کلب بنواکر ان کے الیکشن کر وا کر کسی بھوتار سے پھر اپنے مقدر کا حلف لے رہی ہے
سندھ کی دانش کتے کی طرح بھونک رہی ہے
سندھ کی دانش زرداری کی عمر درازی کے لیے دعا کر رہی ہے
سندھ کی دانش سردار شاہ کے دامن کو تھام رہی ہے کہ کہیں صاحب ناراض نہ ہو جائے اور یہ در بھی بند نہ ہو جائے!
سندھ کی دانش
سندھ کی دانش
سندھ کی دانش
سندھ کی دانش جھک ما ر رہی ہے!
اور جس سندھ کی دانش کا کہیں کوئی ہاتھ پیر نہیں چل رہا وہ سندھ کی دانش پیرالائیز ہے
مفلوج ہے!
اور وہ سندھ کی بوڑھی مفلوج دانش چھوٹی نادان بچیوں کو عشق کے جال میں پھنسا رہی ہے
اپنی سیلفیاں لیے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہی ہے
اور سمجھ رہی ہے کہ وہ سندھ کی خدمت کر رہی ہے.
دوسری طرف وہ پیر جن کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
”اکھیوں پیر کرے پرین ء ڈے ونججے!“
”آنکھوں کو پیر بنا کے ساجن کے پاس جاؤں!“
وہ پیر اوباوڑو کی پولیس نے قفل زدہ کر دیے ہیں
اور وہ ہاتھ جن ہاتھوں پر مسافر ی کی لاچاری ثبت تھی
جن ہاتھوں کو چوما جاتا،جن ہاتھوں کی آرتی اتا ری جا تی،جن ہاتھوں کو آنکھوں پر مس کیا جاتا
جن ہاتھوں کویسوع کے پیروں کی ماند آنسوؤں سے دھویا جاتا وہ ہاتھ ہتھکڑی سے کلف زدہ کر دیے گئے ہیں
بہت ہی اداس دن ہیں
بہت ہی مایوس دن ہیں
بہت ہی کھٹن دن ہیں
بہت ہی رُلانے والے دن ہیں.
بہت ہی ٹھنڈے دن ہیں
اور سندھ کی دانش سلفی کا سُٹا لگا کر سو رہی ہے ایسے میں کوئی سندھ کا کیس لڑے کون سندھ پر دردوں بھرا ناول لکھے کون سندھ کے ہیروز کا نوحہ لکھے
اور کون لکھے کہ
”یہ ٹھنڈے اور اداس دن
بھیگے،نم خوردہ،خوفناک دن
لنگڑے،اپاہج دن
یوں ہی سندھ کی زندگی بیتتی ہے
سندھ کے لیے کٹھن آزمائیشیں ہیں
تکلیف
دل کا رنج
ندامت
پشیمانی
وہ مگن ہیں
ہم رو تے ہیں!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں