انسانی جذبات ،جذباتی نعریں اور نظریاتی سیاست – اسلم آزاد

699

انسانی جذبات ،جذباتی نعریں اور نظریاتی سیاست

تحریر: اسلم آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

جذبات انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور جذبات کے بغیر کوئی انسان زندہ نہیں رہ سکتا لیکن سیاست میں جذبات کی کوئی اہمیت نہیں۔

سیاست چاہے انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہو لیکن اسکا بنیادی مقصد مفادات کا تحفظ ہے، مفادات کے حاصل کرنے کے طریقے کار کو سیاست کہتے ہیں۔

سیاست کا پہلا سُتون شعور ہے، شعور انسان کو اپنےحقوق کو حاصل کرنے کا ایک منظم حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی کو دلیل اور منطق سمجھ نہیں آتا، تو اسلیے انقلابی تحریکوں میں مرکزی قیادت ایک سوچے سمجھے منصوبہ بندی کے تحت عام آدمی کے جذبات کو اشتعال دیتے ہیں، تاکہ وہ جذباتی صورت میں ابھر کر انقلابی تحریک کا حصہ بنیں، لیکن مرکزی قیادت کو عام آدمی کے ہر چھوٹے بڑے حرکت پر گہرا نظر ہوتا ہے یوں نہ ہو کہ اُن کے جذباتی عمل تنظیم ساخت کو نقصان دے اس لیے سیاسی قیادت ہر لمحہ عوامی تحریک کو اپنی سیاسی بصیرت اور موجودہ حالات کو مدِنظر رکھ کر اُن کی رہنمائی کرتا رہے گا۔

مزاحمتی تحریک کے دوران شہادت و نقصان ایک فطری عمل ہے۔ ایک ذی شعور انسان اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ یہ اغواء، ٹارچر اور شہادت تحریکِ آذادی کے لازمی جزُ ہیں۔

یہ سوچنے، سمجھنے اور تسلیم کرنے والی بات ہے کہ دوران جنگ میں نقصانات دونوں فریقین کو ہوتے ہیں کیونکہ جنگ زندگی اور موت کا کھیل ہے جس میں کبھی بھی کیسی بھی وقت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لیے حالاتِ جنگ میں گھبرانا، خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انسانی تاریخ میں نقلابی لکھاریوں نے اسِ چیز پر زور دیا ہے کہ ایک نظریاتی کارکن کو شعوری طور پر یہ کلیئر ہونے کی ضرورت ہے کہ کوئی قریبی ساتھی کے شہادت پر شکست کردہ یا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا نہیں بلکہ ان شہیدوں کے نظریاتی وژن کو اپنانا اور اُس میشن کو پائے تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے، جو لوگ مزاحمتی جد وجہد کے دوران انسانی قربانی سے گھبراتے ہیں تو وہ انسانی آزادی کی تاریخ سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ نظریاتی حوالے سے نہ پختہ بھی ہیں۔

26 اگست 2006 کو نواب اکبر بگٹی کے شہادت کے بعد بلوچ قوم میں ریاست کے خلاف ایک غصہ پیدا ہوا، اس غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے لوگوں نے شٹرڈآوں، ہڑتال، پہیہ جام کیا۔

ان تمام حرکتوں کے باوجود مقامی لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو اُنہوں نے سامراج ریاست کے خلاف جلسہ، جلوس اور جذباتی تقریر شروع کیا لیکن ریاست پھر بھی خاموش تماشہ دیکھ رہا تھا، تو مقامی لوگوں نے ریاست کی خاموشی کو ریاست کی کمزوری سمجھ کر ریاست کے خلاف غیر منظم اور جلدبازی انداز میں مسلح جدوجہد کو اس قدر تیز کیا کہ مسلح تنظیموں کو اپنے مسلح کارکنوں کو سنبھالنا کوئی قیامت خیز مصیبت سے کم نہیں ہوا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علاقائی اور بعین الاقوامی لیڈرشپ ایک سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دیتے جس کے زریعہ گلی گلی، کوچوں کوچوں میں دھقان، مزدور اور طلباء کا ذہن سازی کرتے، بعد میں ہر ایک کو گوریلا ٹریننگ دے کر مسلح جدوجہد کے لیے آمادہ کر تےتھے۔

لیکن حقیقت اسکے بلکل برعکس نکلا۔ بلوچ قومی قیادت نے مقامی لوگ اور نوجوان نسل کے کردار سازی و نظریاتی تربیت کے بدلے انکو جذباتی تقریروں کے ذریعے ریاست کے خلاف اُکسایا بعد میں یہی جذباتی لوگ انُکے اپنے گلے پڑگئے۔

2009 میں بلوچ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کے بے رحمانہ قتل کے بعد ردِعملی صورت میں مسلح قیادت نے ایک سخت قدم اٹھایا، نوجوانوں کو بغیر گوریلا ٹرئینگ مسلح جدوجہد کی طرف دھکیل دیا۔ نوجوان نسل نے لاشعوری حالات میں تشدد کا راستہ تو اختیار کیا لیکن اِس تشدد کو منظم انداز میں آگے لے جانے کے لیے تجربہ کار عسکری قیادت نہ ہونے کی وجہ سے 2006 سے 2016 کا ایک پورا جنریشن زوال پذیر ہوا۔

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چین لے مجھے سےحافظہ میرا
مرزا غالب

ماضی کے نا دانستہ پالیسیوں کے سزا آج تک نوجوان نسل مخلتف سیاسی، سماجی اور نفسیاتی شکل میں بھگت رہے ہیں، ماضی کے غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے آج ایک مرتبہ پھر ماضی کے غلطیوں کو دہرا جارہا ہے یقیناً تاریخ اپنے آپکو دہراتی ہے جب لوگ اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔

حال ہی میں یورپ میں ایک بلوچ قومی رہنما کے پُراسرار ہلاکت کے بعد اب ایک اور ہنگامہ برپا کیا جارہاہے، پھر ماضی کی غلطیوں کو دہرایا جا رہا ہے، پھر وہی جزباتی نعرہ بازی، پھر سخت لہجے کی سیاست، پھر نوجوانوں کے نفسیاتی تربیت کے بدلے انُکے ہارمونل جذبات کو اشتعال دیا جارہا ہے۔

انقلاب ایک ارتقائی عمل کا پابند ہے جس میں ہر ایک سیاسی کارکن کا نظریاتی تربیت کیا جاتا ہے، تاکہ وہ مستقبل کے سیاست یا مسلح جدوجہد میں ایک مثبت کردار, مضبوط اعصاب کا مالک, قومی سپاہی بن کر اپنی سیاسی و عسکری ذمہ داری صبر و تحمل کے ساتھ سرانجام دے سکے۔

سامراجی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا واحد طریقہ تشدد ہے۔۔۔”جس تشدد کے ذریعہ مظلوم کو غلام بنایا گیا ہے، اِسی تشدد کے ذریعہ مظلوم سامراج کا مقابلہ کرسکتا ہے” فرائنز فینین۔

پہ ڈہیہءِ آجوئیءَ جنگ لازم انت قاضی
اے راز ماہ چہ کتاب آنی اندرءَ ونتگ
مبارک قاضی

یقیناً تشدد آذادی کا واحد ذریعہ ہے لیکن تشدد سے زیادہ غلام قوم کو اپنے نظریاتی ہدف میں پورا کلیئر ہونے کے ساتھ ساتھ منظم تنظیم اور تجربہ یافتہ لیڈرشپ کی بھی ضرورت ہے۔

جو ہر سانحہ کے بعد دو چار جذباتی تقریر اور شدت پسند نعرہ بازی سے بلاتر ہو، جس میں عوامی غم و غصہ کو صحیح معنوں میں ایک منظم سیاسی شکل دیں۔

اس طرح کی جذباتی تقریر اور نعرہ لگانے سے آپ دشمن کو پھر سے یہ موقع دے رہے ہیں کہ آپ کے جزباتی نعروں کو اپکے خلاف استعمال کریں، پھر انڈر گراؤنڈ کے نظریاتی کارکناں کا نشاندہی کریں اور بعد میں اُن کا ٹارگٹ کلنگ کریں یا اغوا کرکے انُکے مسخ شدہ لاشیں پھینک دیں۔

نتیجے میں شہیدوں کے گھر والے یا ہمدرد پھر ملک بھر کے پیریس کلب کے سامنے شہیدوں کا تصویر لگائیں گے، بڑا بڑا جھنڈے اٹھائیں گے، مختلف سولوگن اور موبتی جلاکر سامراجی اداروں سے انصاف کا بیھک مانگیں گے۔ یہ سارے غیر انقلابی رویہ اور کمزور اعمال ہیں۔

جس ظالم ریاست کے خلاف آپ بغاوت کررہیں، اپنے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، آپکی شہادت کے بعد پھر آپ کے گھر والے اسُی ریاست سے گڑگڑا کے انصاف مانگ رہیں، یہ نوآبادیاتی لوگوں کا ایک نفسیاتی بیماری ہے، جن کو اس طرح انحصار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمن سے اپنا پناہ مانگیں، جو ایک احمقانہ عمل سے کچھ کم نہیں۔

بچے، بڑے، عورتوں کا پریس کلب کے سامنے رونا پیٹنا سیاست اور ماس مبلائزیشن کی حد تک ٹھیک ہے لیکن حقیقت میں اس طرح کی کمزوری انقلابی تحریک کے لیے حوصلہ شکن ہے۔

سب سے پہلے انقلابی لیڈر کو انقلابی جدوجہد سے اپنے گھر والوں، بیوی بچوں کا زہنی تربیت کرنا ہوگا تاکہ اسکی شہادت کے بعد اُسکے ماں بہنیں ماتم کرنے کے بدلے خود خوشی منائی اور دوسروں کو مزاحمتی عمل کی طرف راغب کریں۔ تاکہ انقلابی جدوجہد مزید تیز ہو مزید لوگ اپنے آپ کو اپنی وطن اپنی لوگوں کے لیے قربانی دینے کو ذہنی و جسمانی صورت میں تیار ہوں۔

برادریوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا۔
ساحر لدھانوی

جب انقلابی تحریک اغوا، ٹارچر شہادت کی نہج پر پہنچتا ہے تو مرد حضرات کے لیے سر فیس سیاست کرنے کا ماحول تنگ ہوجاتا ہے تو وہ انڈر گراؤنڈ میں اپنے مسلح سرگرمیاں سنبھالنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں تو ساتھ ساتھ خاتون حضرات سرفیس سیاست کی سرگرمیاں اپنے کندھے پر لیتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ بلوچ خاتون مردوں کے شانہ بشانہ سیاست میں بھر پور شمولیت اختیار کریں۔ سرفیس سیاست کی قیادت کا زمہ داریاں سنبھال لیں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے کوچہ و گاؤں میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ خاتون لیڈرشپ گھر بیٹھ کر سوشل میڈیہ یا دوسرے پلیٹ فارم کے ذریعے پوری دنیا کے کونے کونے میں اپنے محکوم عوام کا سیاسی شعور اجاگر کرسکتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی، سماجی اور گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھا سکتے ہیں۔

بصورت دیگر جس طرح ماضی میں سیاسی تنظیموں کے خلاف ریاست نے کریک ڈاون شروع کیے تو تمام مرد سیاسی کارکن انڈر گراؤنڈ ہوے تو سر فیس سیاست میں خاتون کی غیرموجودگی کی وجہ سے میدان خالی تھا۔ اگر اب بھی خاتون طلبا و طالبات اپنی سیاسی ذمہ داریاں سنبھالنے میں ناکام رہیں پھر اس خلا کو بھرنے کرنے کے لیے موقع پرست سیاستدان میدان میں اتریں گے اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرنےکے لیے مظلوم لوگوں کے جذبات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہینگے۔

اس میں کوئی حرج نہیں کہ غلامی سےآزادی تک کا سفر ایک مشکل اور کٹھن سفر ہے لیکن اب اس نظریاتی جہدوجہد میں مرد عورت ایک دوسرے کے ساتھ اس انقلابی مشینری کو ایک ساتھ مستقل مزاجی سے آگے بڑھائیں گے۔

تو کہ آشوبءَ چوشیں کارءِ کسانیں لیکے
اے سرے سِندگ انت سرے رندگ نہ انت
خان صابر

انقلاب جہدِ مسلسل کا کام نام جس میں جلدبازی اور جذباتی نعرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ برُدباری اور دوراندیشی کا سفر ہے، اسلیے بلوچ سیاسی قیادت کو ہوش کی ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ نوجوان نسل طلبا و طالبات اور عوام کے وقتی جذبات کو ایک نظریاتی سمت دیں اور اُن کے بہتر سے بہترین طریقے سے رہنمائی کریں تاکہ بلوچ قوم کو اپنی قومی غلامی سے نجات حاصل ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں