کریں تو کیا؟ جائے تو کہاں؟ – شئے عبدالخالق بلوچ

222

کریں تو کیا؟ جائے تو کہاں؟

شئے عبدالخالق بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ظالموں سے کہہ دیا جائے گا، اب چکھو مزہ اُس کمائی کا جو تم کمایا کرتے تھے۔ (سورة الزمر 24)
مصیبتیں اور مشکلات ہر جگہ انسان کو گھیر لیتے ہیں مگر قدرتی آفت و مصیبت مشکلات اور موت آنے پر انسان کے پاس صبر و برداشت کے سوا کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر اس کے برعکس کوئی کارِ خداوندی میں مداخلت کرے اور لوگوں کے جینے مرنے ، موت و زندگی کا فیصلہ دنیاوی مخلوق اپنے ذمہ لے تو انسان کے پاس دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں ایک بے بسی دوسرا مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

پچھلے کئی سالوں سے روز کسی نہ کسی بلوچ نوجوان کی لاش ان کے ماں باپ کے سامنے بغیر کسی جرم و خطا کے گھروں میں آتا ہے اور گھر میں ماتم چھا جاتی ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سماج میں ایک اضطراب سی ماحول کا جنم لینا کوئی خیران کن بات نہیں ہوگی کیونکہ سائنس کی رو سے انسان ایک سوشل اینیمل یعنی سماجی جانور ہونے کے ناطے سوچنے سمجھنے اور سماج میں متحرک اپنے زندہ ہونے کا ناطہ جوڑ کر جینا چاہتا ہے اگر اس کے سماجی زندگی کو قید کرکے معاشرتی سرگرمیوں سے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے تو قطع نظر ایک بے حس انسان کے لیکن ایک باشعور اور زندہ انسان کی مزاحمت فطری عمل ہے اپنے جان و مال ، عزت و آبرو انسانی و سماجی اقدار ہر باشعور انسان کے معمول ہوتے ہیں اگر ان سب کو کوئی غیر آکر طاقت و قوت سے زیر کرنے کی کوشش کریں تو ایک زندہ باشعور اور ذہنی طور پر بالغ العلم و عمل سے کامل انسان اپنے زندہ ہونے کا احساس کسی نہ کسی طرح ضرور دیگا حتٰی وہ باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر بھی مجبور ہوتا ہے۔

بلوچ بھی اس سماج کا ایک زندہ قوم ہے، اپنا تاریخی مقام مرتبہ تہذیب و تمدن رکھتا ہے انہیں بھی زندہ رہنے کا اتنا حق ہے جتنا دوسرے اقوام عالم کو اس سماج میں بسنے رہنے اور زندہ ہونے کا حق ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچ کا واسطہ ایک ایسے غیر تہذیب یافتہ قوم اور ریاست سے پڑی ہے، جو تہذیب و تمدن سے عاری قوموں کے احساس و جذبات سے بے خبر انسانی قدر و قیمت سماجی اقدار سے مکمل چشم پوشی صرف طاقت کی زبان جانتا ہے اور اپنے طاقت کے ذریعے انسانوں کے شعوری افکار کو روند کر غیر مہذبانہ اور غیر انسانی رویوں کے بل بوتے پر اپنا جارہانہ اور وحشیانہ سوچ مسلط کرنے کی تگ و دو میں ہے۔

بلوچ معاشرے کو تعلیم و ترقی سے کب کا محروم کر چکے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں سے ان کے سماجی اور معاشرتی زندگی کو آجیرن کر دیا ہے بلوچ نوجوانون کو ملک دشمن دہشتگرد ، مزاحمتکار اور کئی کئی القاب کے نام پر بے گناہ شہید کرچکے ہیں جب ایک نوجوان اپنا گھر بار چھوڑ کر ہزاروں میل دور صرف تعلیم کی غرض سے جاتا ہے تو ریاست کی آنکھ میں وہ ایک دہشتگرد کی روپ میں گھوم رہا ہوتا ہے لیکن وہ بیچارہ یہ سوچ کر جی رہا ہیکہ پڑھ لکھ کر اِس ملک کے کسی اعلٰی ادارے میں کیسا نوکری کرنا ہے اور آفیسر بننا ہے سی ایس ایس اور پی ایس سی کی تیاری کیسے کرنا ہے اپنے دوست کلاس میٹ اور پہلے سے کولیفائیڈز سے رہنمائی لیکر تیاری میں لگ جاتا ہے اور ملکی قانون کی حفاظت اداروں کی ضمانت اور خود رزق کی کمائی کا سوچ رہا ہوتا ہے لیکن کون سمجائے ریاستی ان اداروں کو جس ملک کو صرف آپ اپنا سمجھتے ہیں کچھ نادان بلوچ بھی یہاں آج تک اپنے بھائیوں کو شہید ہوتے دیکھ کر ان کی مسخ شدہ لاشیں اٹھا کر ان کو اغوا ہوتے دیکھ کر بھی آپ پر آس لگائے امیدیں رکھتے تم جیسا جینا چاہتے ہیں خدار ان کو گلے تو نہ لگائے لیکن زندہ رہنے دیں، جبکہ ریاستی آنکھ ان کو ایک بلوچ کی نظر سے دیکھ کر مشکوک نگرانی میں رکھتا ہے کیونکہ آج ریاست کی نظر میں بلوچ کا ہونا جرم اور ملکی دستور و قانونی شقون کھلی خلاف ورزی ہے۔

اِس جرم کی پاداش میں گذشتہ روز حیات بلوچ کا وحشیانہ قتل اس سلسلے کی زندہ مثال ہے، جب کراچی یونیورسٹی کا طالب علم چھٹیاں گزارنے اپنے شہر آیا اپنے گھر کے قریب باغ میں والد کا ہاتھ بٹا رہا تھا، کس جرم کی پاداش میں اور کس خطا کی سزا اس کو دی گئی نہ اس کے ہاتھ میں بندوق تھا، نہ بم، بے بس نوجوان کو لاچار والد کے سامنے سے گھسیٹ کر اس کو ماں باپ کے سامنے اس کے جوان سال بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ نہ کسی قانون کا ڈر نہ کوئی خوفِ خداوندی ایسا لگتا ہیکہ ان کو موت نہیں آئے گی قبر کی حساب و کتاب نہیں ہوگی جنت کا ٹکٹ پہلے سے کنفرم وردی کے جیب میں موجود ہے جبکہ مظلوم والد کی فریاد بھی ان سِنگدل بے رحم ایف سی والوں پر کچھ اثر نہیں کرتے تو کس امید سے کچھ نادان ان سے وقتی سہارے لے رہے ہیں۔

حالانکہ بلوچ مزاحمتی تحریک اور مزاحمتکار ریاست سے کھلم کھلا جنگ کا اعلان کرچکے ہیں اور وہ روڈ کناروں اور شہر و باغات میں کیسے غیر مسلح ہوکر گھومتے کہ ایف سی اہلکار انہیں آرام سے گھسیٹ کر روڈ پر لاکر گولیوں سے چھلنی کر دیں۔ اور آج تک کسی عام شہری نے مزاحمتکار کی شہادت پر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی سرمچار کے قتل پر قاتل کو سزا دینے کا مطالبہ کیونکہ وہ خود کہہ چکے ہم اپنے عمل کے خود زمہ دار ہیں نہ کہ ہمارے بھائی باپ بیٹا ہر کسی نے اپنا راستہ خود طے کیا ہے ہر کوئی اپنے اعمال کا زمہ دار ہے لیکن ریاست ہیکہ ماننے کو تیار نہیں۔ بھائی مزاحمتکار ہے بھائی کو اغواہ کرو بیٹا مزاحمتکار ہے والد کو اٹھاؤ گھروں کو آگ لگاؤ خاندان والوں کو محصور کرو بلوچستان میں ریاستی پالیسی کے اصول ہرممکنہ سفاکانہ جابرانہ ظالمانہ اور غیر انسانیت سوز ناقابل بیان حد تک غیر ممکن ہیں ایک زمہ دار ریاست کو پاگل پن جنگی جنون سے نکل کر بین الااقوامی قانون کے تحت پالیسی اپنانا چاہئے تاکہ جنگ کرنے والوں سے جنگی اور عام عوام سے عوامی اصولوں کے تحت ڈیل کریں۔

حیات بلوچ جیسے ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کا قتل معاشرے میں مزید بے چینی کا سبب بن کر ریاست کے خلاف عوامی احتجاجی مزاحمت مزید زور پکڑ کر راہیں ہموار کرنے کے لئے آسان ترین وجہ بن سکتی ہیں، بے گناہوں لوگوں کے قتل کا تدراک قاتل کے خلاف قانونی چارہ جوئی قانونی تقاضہ ہے اور ہر کسی کا حق ہے گوکہ ایسے مطالبے کو اس ملک میں جرم کہا جاتا ہے، ملک دشمن اور غدار ٹہرانا ان کا آسان ترین ہتھیار ہے لیکن اپنے بھائیوں بیٹوں دوستوں کا وحشانہ قتل آنکھوں کے سامنے دیکھ کر کیسے منہ پھیر دیں تو اس سے بدتریں ظالم نہیں ہوسکتا۔

قرآن و حدیث کا فرمان یہی ہیکہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کر دیا ہے تاکہ کوئی بھی مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد نہ کرے، اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس ظالم کا شریک کار سمجھا جائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ظالموں کی جانب جھکاؤ رکھنے پر متنبہ فرمایا ہے۔

(ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسّکم النّار ، وما لکم من دون اللہ اولیاء ثمّ لا تنصرون) (سورة ھود 113)
(ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے، اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی۔)

اس کا مطلب ہی یہی نکلتا ہے کہ ظلم کو دیکھ اس سے منہ پھیرنا ظلم میں برابر کے شریک ہونا ہے۔

آج بلوچ مزاحمتکار سے لیکر عام شہری ماسٹر ، ڈاکٹر طالب علم سرکاری ملازم حتٰی ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی طرح اس ظلم کا شکار ہے اور ریاست انہیں ایک ہی نظر سے دیکھتا اور ان سے ایک جیسا برتاؤ ہوتا ہے۔

آج بلوچستان کے لوگ ایک گاؤں سے لیکر دوسرے گاؤں تک دس دس چیک پوسٹ کراس کرکے اپنا شناخت جس تذلیل سے انہیں کرانا پڑتا ہے، خوف اور وحشت کی وجہ سے وہ نہ میڈیا میں آتے ہیں اور کوئی بیان کرسکتا ہے خواتین اور بچوں سے جو سلوک رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ایک سولہ سترہ گریڈ کے آفیسر ایک ایف سی اہلکار کے سامنے جس بے بسی اور آداب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور سرجی سرجی کر رہا ہوتا ہے تو اُس وقت اِس بندے خدا کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مطلب اچھی طرح یاد آتا ہے کیونکہ بقول انکے پاکستان کا مطلب کیا؟ (لَا إِلٰهَ إِلَّا الله) موت قریب ہونے پر کلمہ یاد آجاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔