یورپی ذہنیت، اختلاف رائے یا غیر دانستہ وطن دشمنی ؟ – توارش بلوچ

396

یورپی ذہنیت، اختلاف رائے یا غیر دانستہ وطن دشمنی ؟

 تحریر : توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان پچھلے ستر سالوں سے پاکستانی قبضہ میں ہے، اس دوران ریاست نے بلوچستان میں پانچ بڑے آپریشن کیئے جس میں پانچواں ابھی تک جاری و ساری ہے۔ ریاست نے یہ آپریشن اس لیے نہیں کیے کہ پاکستان کے اندر موجود سندھ، پنجاب اور گلگت کے لوگوں کو چھوڑ کر صرف بلوچوں کا قتل کرنا ہے بلکہ یہ آپریشن اور جنگی جرائم ریاست نے اس لیے کیے کہ ہر دور میں باشعور بلوچ نے اپنی قومی آزادی و قومی شناخت کیلئے جدوجہد کی اور براہ راست اپنی آزادانہ ریاست کے قیام کیلئے عملی طور پر جدوجہد کیا۔ قابض ریاست کو ہمیشہ سے یہ خطرہ لاحق رہا ہے کہ بلوچ مزاحمت سائنٹیفک شکل اختیار نہ کرے بلکہ بلوچ روایتی طور پر لڑیں تاکہ بلوچ قومی مزاحمت کو دنیا کی طرف سے کوئی عالمی طاقت تصور نہ کیا جا سکے، جس کی وجہ سے یہ ریاستی پالیسی رہی ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے آئے دن کے حملوں کو میڈیا کوریج دینے سے انکار کرنا، جبکہ اپنے فوجیوں کے مرنے پر خاموش رہنا اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی دنیا کے سامنے بلوچ مزاحمت کو کمزور دکھایا جا سکے، سعودی اور چین جیسے ریاستوں کو یہ باور کرائیں کہ یہاں پر انتہائی محدود پیمانے پر مزاحمت ہو رہی ہے جبکہ اس کو جلد کنٹرول میں لیا جائے گا لیکن حالیہ بلوچ مزاحمت جس میں براہ راست بلوچ سیاست نے حصہ لیا، بلوچ پولیٹکل جماعتوں نے عوامی جلسے و جلوسوں میں بلوچ سرمچاروں کی حمایت کا اعلان کر دیا، کیونکہ بابا خیربخش مری، اکبر بگٹی، بالاچ مری، غلام محمد سمیت بلوچ رہنماؤں نے عرصے دراز سے اس بات کا ادراک کیا تھا کہ پاکستان کی قبضہ گیریت سے چھٹکارے کا واحد حل پاکستان کے خلاف ایک ایسی مزاحمتی قوت کو تیار کرنا جو براہ راست ریاست کے ساتھ مقابلہ کر سکیں، جو براہ راست ریاست کے اہم تنصیبات کو نشانہ بنا سکیں، جو قابض کے رٹ کو چیلنج کر سکیں، عالمی طاقتیں مدد اس وقت کرتی ہیں جب انہیں اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ایک ایسی قوت موجود ہے جس کے ساتھ میں تعلیقات بنا سکوں، تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود شہداء کی قربانیوں بلوچ لیڈرشپ کی محنت و لگن اور بلوچ عوام کی بیباکی سے ریاست کے خلاف مزاحمت نے اس مرتبہ بلوچ قوم کیلئے ایک ایسی قوت کو تیار کیا جو اب براہ راست ریاست کے اہم تنصیبات، اہداف اور کسی بھی ریاستی پروجیکٹ اور حساس مقام پر حملہ کر سکتے ہیں، جس کی قوت کو عالمی دنیا بخوبی اندازہ لگا رہی ہے۔ لیکن تعجب اس وقت ہوتی ہے جب یورپ میں مقیم وہ لوگ جو خود بلوچستان میں سرمچار رہے ہیں، مسلح تنظیموں سے تربیت لے چکے ہیں، جنگ کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ کچھ جنہیں یورپ کا نظارہ کرنا تھا لیکن غربت کی وجہ سے جا نہیں سکتے تھے لیکن تحریک سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے باہر سیاسی پناہ تلاش کرلی۔ ان میں کچھ پانچ پانچ سال سے اپنی انگلش ٹھیک نہیں کر سکے ہیں جبکہ اگر کسی نے چار انگریزی الفاظ سیکھ لیا ہے تو وہ اپنے آپ کو مہذب سمجھنے لگے ہیں۔

چلو اپنے اصل مدعے پر آتے ہیں، کل صبح دس بجے کے وقت تمام نیوز چینلز پر خبر گردش کرنے لگی کہ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اسٹاک ایکسچینج پر بی ایل اے فدائی اسکواڈ نے حملہ کر دیا ہے، حملے کی کامیابی و ناکامی پر تجزیہ نگار خود بہتر طور پر تجزیہ کر سکتے ہیں جن کا کام ہے البتہ ساتھی سنگت اپنا جنگی ہدف حاصل نہیں کر سکے جو ہدف انہوں نے گوادر پرل کنٹینٹل ہوٹل حملے میں کیا تھا، اس کی ایک وجہ اسٹاک ایکسچینج کی سخت سیکورٹی اور دوسری وجہ ساتھی سنگتوں کی جنگی وقوعہ کی حالات کا عدم علم ہو سکتا ہے کیونکہ دو ساتھی گیٹ کے سامنے ہی شہید ہوتے ہیں جس سے دیگر دو ساتھیوں کیلئے اسٹاک ایکسچینج کو قبضے میں لینا مشکل بن جاتا ہے، جس کا مظاہرہ بہادر ساتھی لڑتے ہوئے کرتا ہے وہ بار بار پیچھے اپنے ساتھیوں کی تلاش میں ہوتا ہے جبکہ ایک دوسرے کو کور دیے بغیر سامنے والے مسلح افراد کو مار کر اندر گھسنا شاہد مشکل ہوتا ہے، خیر اصل مدعے پر بات کرتے ہیں، چونکہ ہم ریاست سے براہ راست جنگ میں ہیں، ساتھیوں کی شہادت کا رونما ہونا حیران کن بات نہیں ہو سکتی، جنگی محاز میں آئے دن دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے ساتھی شہید ہو جاتے ہیں، دوران حملے جبکہ چھوٹے موٹے آپریشن کیلئے بھی بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہوتا ہے، شہید میجر نورا دیگر تین سینئر ساتھیوں سمیت محض ایک دلال کو پکڑنے کی نیت سے جاتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں، کیونکہ جنگ میں نقصانات ایک حقیقت ہے۔ لیکن اسٹاک ایکسچینج جیسے اہم ریاستی تنصیبات پر حملے میں شہید ساتھیوں کی شہادت پر و جنگی ہدف حاصل نہ کرنے پر ایک طرف قابض ریاست جبکہ دوسری طرف ہمارے کچھ نابالغ سیاسی اور نیم انقلابی لوگ بھی لوگوں کو کنفیوژن کا شکار کر رہی ہیں۔ کچھ ایسے ہی عجیب و غریب عالم یورپ میں مقیم آزادی کی جدوجہد کے نام پر یورپی ملکوں میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ساتھیوں کی طرف سے بھی سامنے آیا جس پر تعجب اپنی جگہ مگر مکالمہ کی شدت محسوس کی۔

عوام میں ان کا پرچار کرتے تھے، پھر اگر یہ جواز ہے تو یہ لوگ براہ راست کہیں کہ بلوچ قومی تحریک سے دست بردار ہو جائیں، ایسا کرنے سے بلوچستان میں لوگ بنیاد سے ہی لاپتہ ہونا بند ہو جائیں گے، ڈیٹھ اسکواڈ بھی نہیں ہوں گے، فوج و آرمی بھی پھر باڈرز کی طرف جائے گی اور بلوچستان کو پولیس و لیوز کے تحویل میں دے گی، پھر کوئی بچہ و ماں نہیں روئے گا روڈوں پر، تو براہ راست یہ کہنے کی جسارت نہیں رکھتے کہ ہم ذہنی طور پر بلوچ مسلح جدوجہد کے خلاف ہو چکے ہیں، ایسا کرنے سے ان کی سیاسی ساخت مٹ جائے گی، اصل میں ذہنی پستی یعنی تشدد سے نفرت کرنے کے بعد وہ اب خود اس بات کا ادراک کرنے سے عاری ہو چکے ہیں کہ وہ قومی جدوجہد آزادی سے ذہنی طور پر کٹ چکے ہیں۔ یہ باتیں ان کے لاشعور میں موجود ہیں، جیسے معمولی باتوں پر ری ایکشن دینا، بہت زیادہ ہمدرد بننا وغیرہ وغیرہ

ایک اور بات، اب ان کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ لوگ گراؤنڈ پر لاپتہ ہو رہے ہیں، جدوجہد بھی گراؤنڈ پر جاری ہے، شہید ہونے والے بھی انہی سخت حالات سے نکلے ہوئے لوگ ہیں، جبکہ زمین پر ان جیسے حملوں پر بچہ بچہ جشن مناتا ہے، میں آج ہی کسی کے گھر گیا تھا، کہہ رہا تھا کہ آج کراچی میں شہداء نے کمال کیا ہے، مجھے محسوس ہوا کہ وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہے ہیں لیکن یہ خوشی، یہ جذبہ وطن پرستی، قومی آزادی کا یہ جنون یورپ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کیوں دکھائی نہیں دیتی، بلوچ نوجوان و خواتین کی ہر سیاسی جدوجہد میں یہی جوش و جذبہ ملتا ہے۔ زمین پر کوئی اس حملے سے پریشان نہیں مگر یورپ والے پریشان ہو جاتے ہیں، اصل میں فلسفہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، لیکن یورپی والے فلوسفی بھی نہیں پڑھتے ماسوائے یو این او چارٹر کے شقوں کے، فلوسفی پڑھتے تو شاہد اپنے رویہ سے وہ مکمل اس بات کا اخذ کرتے کہ یورپ میں زندگی گزارنے کے بعد ہم بلوچ مسلح جدوجہد کے ذہنی طور پر مخالف بن چکے ہیں مگر لاشعور میں ہونے کے بعد ہم اس کا اظہار نہیں کر پا رہے ہیں۔

لیکن ایک بات ان کو گوش گذار ہو کہ یہ جنگ یورپ میں نہیں بلوچستان میں جاری ہے اور اس میں شامل سپاہی و قیادت دونوں کا تعلق زمین سے ہے اور بلوچستان کی زمین میں بیٹھا شخص اس بات کا مکمل ادراک رکھتا ہے کہ قابض ریاست سے آزادی صرف اور صرف تشدد سے ہی ممکن ہے اور وہ ہر عمل کیلئے تیار ہوں گے جس سے قابض ریاست پاکستان کو نقصان پہنچ سکیں۔ آخر میں انہیں اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کی ان بہیودہ حرکتوں سے گراؤنڈ میں تحریک مخالف لوگوں کو شے مل رہی ہے اور وہ انکی ہی باتوں کو جواز بنا کر قومی تحریک کے خلاف پروپگنڈا کرتے ہیں۔

کلئیرفیکیشن
باہر بیٹھا ایک ایف بی ایم ٹولہ جسے حیربیار نامی ناکام شخص لیڈ کر رہے ہیں براہ راست دانستہ طور پر اپنی ناکامیوں کی وجہ سے وطن دشمنی پر اتر آیا ہے، اس کے ساتھ بیٹھے لوگ جبکہ وہ خود تو تشدد کو براہ راست سپورٹ کرتا ہے لیکن ناکامیوں اور اپنے ہی تنظیم سے فارغ کرنے کے بعد یہ شخص اب مکمل طور پر جہد مخالف بن چکا ہے، ان کے پارٹی ممبر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر شہداء کے خلاف ایکٹیو ہو چکے ہیں، اس ناکام شخص کے مطابق تحریک وہی ہے جس کو میں اپنے مطابق چلاؤں لیکن ساتھیوں کے اندر اپنا مقام کھونے کے بعد یہ ذہنی طور پر پستی کا شکار ہو چکا ہے، جس کا عملی مظاہرہ ان کے ساتھیوں سمیت ان کے کرتوتوں سے واضح پتا لگتا ہے۔اب یہ لوگ تحریک دشمنی میں ہر حد پار کر جائیں گے کیونکہ تحریک میں ان کا مقام اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔