شہید جلال سے شہید پیرک تک کاروانِ آجوئی – عبدالواجد بلوچ

548

شہید جلال سے شہید پیرک تک کاروانِ آجوئی

تحریر : عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

البرٹ کامیونے کہا تھا “میں بغاوت کرتا ہوں اس لیئے میں ہوں. بغاوت کی روح نہ ہو تو انسانی وجود گند کا ڈھیر ہے، بغاوت کی روح ہی انسانی وجود کو تقدس عطا کرتی ہے، یہ تصویر مقدس بغاوت کی تصویر ہے، یہ تصویر مجسم بغاوت ہے اور بغاوت ہر جگہ قابل پرستش ہے“

میں بذات خود شہداء کے حوالے سے تیرہ نومبر کو مقدس دن سمجھتا ہوں، لیکن کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں لکھنا کسی مخصوص دن کا محتاج نہیں ہوتا، ایسے کردار نے بلوچ تاریخ میں اپنے عمل اور کمٹمنٹ سے تحریک کو ہمیشہ اولیت دی تا شہادت ان کا ایک ہی مشن تھا کہ تحریک مضبوط ہو ادارے مضبوط ہوں۔

مائیکل جارڈن “کچھ لوگ چاہتے ہیں، کچھ لوگ خواہش کرتے ہیں، اور کچھ لوگ کرکے دکھاتے ہیں” یقیناَ دورانِ جدوجہد شہید نعیم بلیدئی عرف کمانڈر جلال اور شہید نورا عرف میجر پیرک نے اپنے عمل سے یہ دکھایا اور ثابت کیا اگر کمٹمنٹ مضبوط ہو تو کسی بھی ہدف کو حاصل کرنا ناممکنات میں شامل نہیں ہوتا فقط جذبہ اور جنون کا ہونا اولیت رکھتا ہے.

پاکستان نے سامراجی طاقت چائینا کے ساتھ مل کر بلوچستان کے کونے کونے میں بدترین استحصال کو برقرار رکھا، وہیں اپنی موت کا جال بھی اس خطے میں بچھایا کیونکہ بلوچ جہدکار انتہائی بہادری کے ساتھ کم وسائل کے باوجود ان طاقتوں سے نبرد آزما ہیں، بلوچ عوام کی اس سامراج سے آزادی حاصل کرنے کی بے شمار قربانیوں کی ان گنت داستانیں آج بھی زندہ ہیں، ہر سامراجی طاقت سے آزادی کی اس جنگ میں بیشمار نوجوانوں نے اپنی عظیم قربانیوں اورشہادتوں سے اس خطے کی سرزمین کو ذرخیز کیا ہے.

موت زندگی کے اختتام کا نہیں بلکہ لامحدود زندگی کے آغاز کا نام ہے۔ہر ذی روح نے انتقال کرنا ہے اِس دنیا سے اُس دنیا کی طرف جہاں راحت یا تکلیف کا انحصار ہمارے اعمال پر ہے،جو لوگ زندگی جیسی نعمت کو کسی عظیم مقصد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں وہ حیاتِ جاوداں پا لیتے ہیں.

شہید محراب خان کی شہادت سے لے کر دور حاضر کے دورانیے تک ہزاروں بلوچ فرزندوں نے بلوچ سرزمین کی حفاظت و بقاء کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کی درخت کو اپنے لہو سے سیرآب کیا، آج بلوچستان کے ہر کوچہ و شہر کے قبرستان میں کچھ ایسی قبریں آنکھوں کے سامنے عیاں ہونگے جو دیگر قبروں کی بہ نسبت زیادہ نمودار، تابندہ ، ممتاز اور صاحب ِحیثیت ہیں۔ان قبروں میں دفن ہستیوں نے بلوچستان کی آزادی اور بلوچ قومی بقاء و تشخص کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنی ذات پر اجتماعیت کو زیادہ فوقیت دی ہیں، ان شہداء نے اپنے حال کو آنے والی نسل کی روشن مستقبل کے لیئے قربان کیا، جنہوں نے اپنی زندگیوں کے ہر لمحہ کو قومی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے وقف کردیا. ان عظیم ہستیوں کی انتھک جدوجہد اور قربانیوں کی صحیح تشریح اور وضاحت کرنا مجھ جیسے نالائق کی سوچ سے بالاتر ہے، میرے پاس ایسے الفاظ کا فقدان ہے جو ان عظیم شہداء کی شجاعت، قربانی اور عظیم کردار کے ستائش پر پورا اتریں، ان فرزندانِ بلوچستان نے جذبہِ حریت سے لیس ہوکر اپنے وطن کی محبت میں ایسے کارنامے سرانجام دیے جن کی مثالیں تاریخِ جہاں کے اوراق پر کم درج ہیں.

شہید محراب خان سے لیکر عہدِ حاضر تک ہزاروں بلوچوں نے سرڈگارِبلوچستان کی دفاع میں اپنی سروں کو قربان کرکے بلوچ قوم کو ان اقوام کے صف میں شامل کردیا جو اپنی تاریخ میں نقش اپنی ہستیوں کے عظیم کارناموں اور قربانیوں کی بدولت فخر و شان کیلئے خاص مثال بن چکے ہیں.

مَیں اُن دو عظیم ہستیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں اپنی دوستی کے ساتھ ساتھ اس مادرِ وطن کا قرض اتار دیا وہ ایک جسم دو قالب تھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ بنے تھے ایک دوسرے کے لئے گو کہ دونوں شخصیات کے شہادت کے مابین ایک سال کا فرق ہے لیکن یقیناً آج وہ لافانی دوسرے دنیا میں ایک ساتھ خوش و خرم ہیں.

جی ہاں یہ سچ ہے کہ شہید نعیم بلیدئی عرف کمانڈر جلال جان اور شہید نورا عرف میجر پیرک جنہوں سرزمین بلوچستان کی آزادی کے لئے بے مثال کردار ادا کیا.

یقیناً اکیسویں صدی کا نورا پیرک، سیاست اور مزاحمت کے بنیادی اصولوں کو جان کر ہمیشہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو اولین سمجھ کر ثابت قدمی کے ساتھ امر ہوا۔اور نعیم عرف جلال وہ مخلص جھدکار تھا جنہوں نے اپنے اندر ایک مکمل گوریلا کی صلاحتیں اپنائی تھیں جو بہ یک وقت سیاست سے بھی واقف تھے اور شخصیات سے زیادہ انہوں نے ادارتی اصول اپنائے تھے.

شہید پیرک اور شہید جلال وہ بہترین دوست تھے جنہوں نے اپنے آخری وقت میں بھی اداروں کی مضبوطی کی تبلیغ کی کیونکہ انہیں اس امر کا بخوبی اندازہ تھا کہ شخصیات آتے جاتے ہیں لیکن جب ادارے مضبوط ہونگے تو تحریک مضبوط ہوگی جب تحریک مضبوط ہوگی تو آزادی کا کارواں جانبِ منزل صحیح طرح بڑھے گی۔

آؤ ہم آج یہ بھی عہد کریں کہ ہم ذاتیات ، گروہی مفادات، پارٹی بازی و غیر سنجیدہ رویے جیسے اعمال کو ترق کرکے شہیدوں کی خوابِ آزادی کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنے ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو صرف کریں.

آؤ آج ہی سے یہ بھی عہد کریں، ہم فلسفہِ شہید جلال و شہید پیرک پر عمل پیرا ہوکر اپنی کردار و فعل کو ان کی مانند ڈال کر اپنے وجود کو محض تحریکِ آزادی و اداروں کی مضبوطی اور بلوچ جُنز کی کامیابی و کامرانی پر وقف کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔