تعلیمی ادارے طویل بندش کے متحمل نہیں ہو سکتے – احمد علی کورار

96

تعلیمی ادارے طویل بندش کے متحمل نہیں ہو سکتے

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کے معدوم ہونے میں وقت لگے گا یا شاید یہ انسان کے مابین ہمیشہ رہے۔ کیونکہ ابھی تک اس کی ویکسین کا کوئی اتا پتا نہیں۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ سال کے آخر میں اس کی ویکسین منظر عام پر آۓ۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس ان دیکھے وائرس نے معاشی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو تیا پانچا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسیکو کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں 72 فی صد بچوں کی تعلیم متاثر ہو ئی ہے۔

پاکستان میں رواں سال چھبیس فروری کو اس وائرس نے پنجے گاڑھے اور اس نے آتے ہی پہلے تو اسکولز بند کرواۓ اور اس نیک کام میں صوبہ بلوچستان نے پہل کی جس کا تعلیمی نظام پہلے سے ہچکولے کھا رہا ہے، بعد ازاں اس کار خیر میں دیگر صوبوں نے حصہ ڈالا۔

حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوۓ ایک مستحسن قدم اٹھایا گیا لیکن جب بات سخت لاک ڈاٶن سے بھی آگے نکل چکی ہو، ایس او پیز کے تحت تمام کاروبار کو حرکت کی اجازت دی گئی ہو اور ہر طرف یہ بھاشن سننے کو ملتا ہو کہ کرونا کے ساتھ لڑنا نہیں رہنا سیکھیں تو اب نظر کرم کر دیں سکولز کھول دیں۔

ہمیں معیشت کی تو فکر ہے لیکن ہم یہ بھول گئے ہیں جہاں سے معیشت پنپتی ہے ہم اس کا استحصال کرنے کے درپے ہیں۔ کل کسی سائیٹ پر نظر پڑی، محو حیرت ہو گیا لکھنے والے نے لکھا تھا ماہرین تعلیم کے مطابق بچے جتنا جلدی سیکھتے ہیں اتنا ہی جلدی بھول جاتے ہیں۔ اب اس طویل بندش سے کیا نتائج مرتب ہوسکتے ہیں؟ اب تو دنیا کے دیگر حصوں میں تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں۔

ہمارے ہاں آئن لائن سکولنگ کا راگ الاپ جاری ہے جو ایک بھدا مذاق ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس سے سود مند نہیں ہو رہے تو ہم کہاں کے راجے ہیں، جو اس سے مستفید ہو سکیں۔

آئن لائن سکولنگ کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ تو ناممکنات میں سے ہے، دیہاتوں کی کیا بات کریں بعض شہروں میں بھی مکمل طور پر اس کی رسائی نہیں۔

اس سے مفر نہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں نجی تعلیمی اداروں کی بڑی کنٹریبیوشن ہے اور گریجویٹ پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان نجی اداروں میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں ان اداروں میں نوجوان اساتذہ نہ صرف اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں بلکہ یہاں سے ملنے والی خطیر رقم سے ان کا روزی روٹی کا سامان بھی ہوتا ہے، بدقسمتی سے ان اداروں کی بندش سے ان کے لیے چولہا گرم کرنے کا اہتمام خاصا مشکل ہو گیا ہے، ایک طرف تو بچوں کا مستقبل داٶ پر دوسری طرف ان اساتذہ کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔

اب ان اساتذہ کے لیے کوئی دوسرا چارہ بھی تو نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے آئن لائن سکولنگ کا یہ تو صرف ان شہروں تک محدود رہے گا جہاں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہو، اگر اس سسٹم کو درست مان بھی لیا جائے تو سائنسی مضامین پڑھانا قدرے مشکل ہے۔ لیکن بات پھر وہی ذہن میں آتی ہے کہ نظام تعلیم محض شہروں تک تو محدود نہیں۔ کیونکہ آئن لائن سسٹم کی رسائی دیہاتوں میں ناممکنات میں سے ہے۔

مزید لیت ولعل سے کام نہیں لیا جاسکتا ورنہ اس کے کثیر المدتی اثرات ہمارے نظام تعلیم پر پڑ سکتے ہیں۔ اس کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیئے، جس سے وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ نہ ہو۔ سرکاری اور نجی سکولز میں حکومت کی طرف سے سنیٹائیزر اور ماسک کی فراہمی یقینی بنانی چاہیئے، طلبا کو ایک فاصلے پر بیٹھا کر تدریس کا سلسلہ شروع کیا جاۓ۔ تدریس کا دورانیہ کم رکھا جاۓ ہفتے میں دو دن چھٹی کرنی چاہیے۔

جن اداروں میں طلبا کی تعداد زیادہ ہو اگر ادارے کا میدان وسیع و عریض ہو تو عارضی شیلٹر کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایک کلاس میں طلبا کی محدود تعداد بیٹھ سکے۔ اگر اس طرح ممکن نہ ہو تو طلبا کو شفٹ وائز رکھا جاۓ۔
اس حوالے سے متعلقہ حکام کو ان اداروں کو ایس او پیز جاری کرنے چاہیے اور انھیں ہدایت کی جائیں کہ ان پر سختی سے عمل کیا جاۓ۔

نجی اداروں کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اس ضمن میں خاطر خواہ اہتمام کریں تاکہ وائرس سے اس طور رہنا سیکھا جائے کہ ہم احتیاطی تدابیر سے ایک ساکت نظام کو Move کر سکیں۔

حکومت بلو چستان سے گزارش ہے کہ جس طرح آپ نے پہلے اس نیک کام میں نے پہل کی تھی، اب بھی اس کار خیر کے لیے آپ آگے بڑھیں۔ اس مسلسل تعویق کی وجہ سے کہیں دیر نہ ہو جاۓ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔