شکوہ اک خیال – عمران بلوچ

183

شکوہ ، اک خیال

 تحریر : عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سانول امی کی طبعیت پھر سے بگڑ گئی ہے، جلدی گھر پہنچو، سانول نے اپنی پرانی موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کر کے فراٹے بھرتے ہوئے گھر کی سمت روانہ ہوا، فون اسکی چھوٹی بہن ماہ پارہ کی تھی جس نے اپنے گھر کے کسی مرد کو نہیں دیکھا تھا سوائے اپنے بھائی سانول کے، باپ نو سال پہلے دل کا دورہ پڑھنے سے دنیا سے پردہ کر چکا تھا، اس وقت ماہ پارہ اپنی ماہ کے کوک میں پل رہی تھی، ناگہانی یہ تھی کہ اسکے بھائی بہلول اور شیر جان کو زمین نگل گئی تھی یا آسمان کھا گیا تھا ،کچھ پتہ نہیں تھا، وہ دونوں پردیس سے اپنے ملک واپس آرہے تھے کہ ہوائی اڈہ پہنچنے کے بعد انکا کوئی پتہ نہیں تھا، لاکھ کوششوں کے باوجود انکا کوئی سراغ نہیں ملا، انکا باپ شکر خان یہ صدمہ برداشت نہیں کر پایا، ایک ہی ہفتے کے اندر وہ چل بسا، ماں بی بی حوا نیم مردہ ہوگئی، جوان بیٹوں کا غم اور شوہر کی ناگہانی موت، وہ زندہ لوگوں میں مردہ بن کے رہ گئی تھی، سانول اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا وہ اسوقت 18 برس کا تھا ،گھر میں پڑھا لکھا وہی تھا، مجبوریوں کے باعث اپنی تعلیم ترک کردی اور ہنر سیکھنے کے ارادے سے کسی دکان پر کام کرنے لگا اسی آس میں کہ جو ہوا سو ہوا اب اپنی چھوٹی بہن کی پڑھائی اور گھر کی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے سرانجام دے گا ، بہن کو سرکاری اسکول کے بجائے نجی اسکول میں تعلیم دلارہا تھا، ماہ پارہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور ماں کا دھیان رکھتی تھی ایک شیرزال کی مثال تھی، ماہ پارہ، سانول گھر پہنچ کر سیدھا اس کمرے کی طرف لپکا جہاں سے ماہ پارہ  دکھائی دے رہی تھی، کیا ہوا ماہ پارہ؟ سانول ہچکچاتے ہوئے بولا، پتہ نہیں لالا ماں کی طبعیت آج کچھ زیادہ ہی خراب ہے،امی پیروں کی انگلیوں کو مروڑتی زمیں پر رگڑتی ہے ، اپنے ہاتھوں سے چہرے کو نوچ رہی، بالوں کو کھینچ رہی ہے، بڑی مشکل ہورہی ہے، کب سے سرہانے پہ بیٹھی ہوں ہاتھوں کو جکڑ کے پکڑا ہے پر میری طاقت بے بس ہے، نہیں روک پارہی۔ سانول حیران تھا کہ بہن کو دلاسہ دے جسکے آنسوں کسی آبشار کی طرح بہہ رہے تھے یا ماں کو جسکے چہرے پہ جگہ جگہ ناخون کے زخموں کے نشان تھے، اٹھو تم جاکہ مشکیزہ سے پانی لاو، سانول نے ماں کا سر اپنی گود میں رکھا اور ہاتھوں سے اپنی ماں کے ہاتھ جکڑ لیئے، ماں کی زبان پہ دو ہی نام تھے، بہلول شیرو میرے بہلول شیرو۔

ماہ پارہ گلاس پانی کا لیکر سانول کے پاس پہنچی ، ادا (بھائی) پانی! ہاں مجھے دو اس نے پانی کا گلاس ماں کے ہونٹوں سے لگایا جوکہ بالکل خشک اور رنگ انکا نیلا پڑ گیا تھا، پانی کی کچھ بوندیں ماں کی حلق کو پہنچیں، کچھ سر کو جھٹکنے کی وجہ سے اسکے رخسار پر بہہ گئے سانول نے کچھ پانی کی چھینٹیں ماں کے چہرے پر لگاتے ہوئے آواز دی لمہ(امی) خود کو سنبھالیں سانول کی آواز لرزتے ہوئے آرہی تھی بڑی مشکل اور کافی مشقت کے بعد ماں نے ہوش سنبھالا آنکھ کھلی تو سانول کے گود میں اسکا سر تھا ،اٹھ بیٹھیں پہلے سانول کے چہرے کو دیکھا پھر ماہ پارہ کی طرف جو سانول کے پیچھے ڈری سہمی سی گھٹنوں پر کہنی رکھ کر اپنا پیلا چہرہ ہتھیلیوں پر رکھ کر ماں کی طرف دیکھ رہی تھی ماں کی آنکھوں میں آنسوں چھلک پڑے دونوں کو بانہوں میں لیکر زار و قطار سے رونے لگی، سانول نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے ماں کے سر پر بوسہ دیا، ماں نے بڑی کوششوں بعد کچھ کہنے کی کوشش کی تو حلق خشک ہونے کی وجہ سے گلے میں درد سی محسوس کی، ماہ پارہ نے جلدی سے اسے پانی پلایا پانی پینے کے بعد ماں نے ماہ پارہ کی پیشانی کو چومتے ہوئے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور سانول کے چہرے اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی میرے بچوں کوئی بھی ماں نہیں چاہتی کہ وہ اپنے بچوں کو اتنی تکلیف دے جتنی میں نے تم دونوں کو دی ہے سانول نے ماں کے چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں بھرتے ہوئے کہا ہم جتنی بھی خدمت کریں آپکے درد اور دودھ کا قرض نہیں اتار سکتے لمہ جان، بیٹا میرا کوئی قرض نہیں تم دونوں پہ ، تم دونوں نے کم عمری میں اپنا سب قرض اتار دیا ہے میری ہمت میرا حوصلہ میرا جذبہ بہلول اور شیرو نے جانے کے بعد توڑ دیا تھا رہی سہی کسر تمہارے باپ نے پوری کردی، میں ہمیشہ سے خود کو خوش قسمت تصور کرتی تھی شیرو جب پیدا ہوا تھا تو گھر میں رونقیں آئیں تھی ،بہلول کے انے سے گھر کی برکتیں آئیں تھیں، تم دونوں کے آنے سے میں سمجھی تھی کہ میرا ہر سپنا پورا ہوا ،دنیا کی تمام خوشیاں ایک طرف اور تم سب ایک طرف،اور پھر ایسا طوفان آیا کہ میرا ہر سپنا چکنا چور ہوا ریزہ ریزہ ہوا، طوفان نے ہر سپنے کے اتنے ٹکڑے کردیئے کے سمیٹنے کو بھی ایک زرہ نہ ملا میرے لخت جگر مجھ سے ایسے چھن گئے کہ انکا پتہ تک نہ ملا ، خدا نے مجھ پہ اپنا قہر ایسے برسایا کہ میں اب سپنے دیکھنے کی جرات نہیں کرتی ، کل پہلا روزہ ہے میرے بچے پتہ نہیں کس حال میں روزہ رکھیں گے، انکو پتہ ہوگا بھی کہ نہیں کہ روزے آگئے ہیں انکی سحری و افطاری کس طرح ہوتی ہوگی ،انہیں دن و رات کا پتہ ہوگا بھی کہ نہیں بس ایک ڈر سا رہتا ہے وہ زندہ ہیں کہ نہیں وہ زندہ تو ہونگے نہ سانول نو سال سے میں ہر وقت ملک کے کسی کونے میں کوئی لاوارث لاش کی سنتی ہوں تو دل بیٹھ جاتا ہے کہیں میری انگن کو تو اجاڑ نہ دیاگیا ہو میں وہ درد برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں اب کلیجہ منہ کو آجاتاہے ایسے خیال جب آتے ہیں،تو نہ مجھے دن کو سکون ہے نہ رات کو چین، ماں کی باتوں سے سانول اور ماہ پارہ کی انکھیں بہتی جارہی تھیں، مغرب کی اذان کی صدا بلند ہوئی لبیک کہہ کر ماں نے اتنا ہی کہا اے خدا مجھے میرے بچے زندہ سلامت لوٹا دینا انکا دکھ مجھے مت دکھانا سانول نے اپنا چہرہ رومال سے صاف کرتے ہوئے اتنا ہی شکوہ کیا زمینی خداؤں کو طاقت فراہم کر کے اپنی بادشاہی کو شک میں ڈالا ہے وہ صحن میں پہنچا کہ ماہ پارہ بھی اسکے پیچھے پیچھے پہنچ گئی، سانول نے ماں کے بارے میں دریافت کی تو بس اتنا ہی کہا وہ سجدہ ریز ہوگئی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔