سندھیوں کی غلامی سے نجات جی ایم سید کے فلسفے میں پوشیدہ ہے – ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ

313

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹراللہ نذر بلوچ نے جی ایم سید کی برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سندھی قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج جی ایم سید کی برسی ہم ایسے وقت میں منارہے ہیں جب سندھو دیش پر قابض پاکستان کے مظالم اپنے عروج پر ہیں۔ سندھودیش بھی بلوچستان کی طرح نسل کشی اور ریاستی درندگی سے لہولہاں ہے۔ سندھیوں کے بھی گھر جل رہے ہیں اور سندھی نوجوان پاکستان کے عقوبت خانوں میں غیرانسانی اذیت سے دوچار ہیں۔ سائیں جی ایم سید نے جدید سندھی نیشنلزم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے سندھی قومی آزادی کی تحریک کیلئے راہ ہموار کیا۔ سندھی قوم کے لئے جی ایم سید کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ وہ ایک رہبر اور ایک نمایاں مصنف تھے۔ سندھیوں کی غلامی سے نجات اور آزاد سندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں۔ ان کے فکر و عمل و تعلیمات سے استفادہ کرکے سندھی قوم پاکستان سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ پاکستان کی غلامی میں بلوچ، سندھی اور پشتون کی قومی بقاء، زبان و ثقافت شدید خطرات سے دوچار ہیں۔

ڈاکٹراللہ نذر بلوچ نے کہا جی ایم سید عالم، باعمل رہبر تھے، ایک مدبر دانشور اور تاریخ سے آشنا لیڈر تھے۔ انہوں نے پاکستان کی حقیقت جان کر سندھودیش کی آزادی کی تحریک کو نئی طاقت و توانائی فراہم کی اور سندھی قوم کو آزادی کے فکر و فلسفے سے روشناس کرایا۔ ایک عالم و مدبر سیاستدان کی حیثیت سے ان کی نظریات و تعلیمات سندھودیش کی تحریک آزادی کو ایسی مضبوط بنیاد فراہم کرچکے ہیں کہ یہ غیرفطری دشمن پاکستان اس عظیم تحریک کو کبھی بھی نہیں کچل سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت دنیا پر عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان مظلوموں کی سرزمین پر ڈاکہ زنی سے وجود میں لایا جاچکا ہے۔ یہ ریاست نہ اپنی قومی زمین رکھتی ہے اور نہ تاریخ، تہذیب و ثقاقت۔ یہ ایک غیر فطری ریاست ہے جو تہذیب و تاریخ اور مزاحمت کے تاریخی ورثے سے محروم ہے۔ پاکستان آج خطے کے قدیم تہذیب و تاریخ کے مالک اقوام کی سرزمین پر قابض ہے۔ ان سرزمینوں کے اصل وارث بدترین غلامی میں کربناک زندگی سے دوچار ہیں۔ سندھ کے پاس موہن جو دڑو اور بلوچستان کے پاس مہرگڑھ جیسی تہذیبیں اور ہزارہا سالہ تاریخ ہے۔ تاریخ کا جبر ہے کہ پاکستان کا اصل مالک اور حاکم پنجاب ہے جس کے پاس ہندوستان پر حملہ آور وسطی ایشیاء سے آنے والے لٹیروں کی استقبال اور کرایہ داری کے سوا کوئی ورثہ نہیں۔ اس کے پاس مزاحمت کی کوئی علامت، کوئی تاریخ ہی نہیں ہے۔ یہ تاریخ کا ستم ہے کہ یہی پنجاب آج پوری دنیا کو تہذیب سے روشناس کرنے والے اقوام کی سرزمین پر قابض ہے۔

بلوچ رہنما نے کہا کہ سندھی ایک قدیم تہذیب کا وارث اور ہزارہا سالوں سے اپنی سرزمین کا مالک ہے اور اپنی صوفیانہ نظریات کی وجہ سے انسان دوست اور اپنے ہمسایوں سے پرامن بقائے باہمی کے قائل قوم کی پہچان رکھتی ہے۔ میں سندھودیش کے وارثوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان جمہوریت اورجمہوری اقدار سے محروم ملک ہے۔ اس کی باگ ڈور مذہبی انتہاپسندی جیسی نفسیات پر تشکیل کردہ درندہ فوج کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان نے مظلوم اقوام کے لئے پرامن جدوجہد کے تمام راستے مسدود کردیئے ہیں۔ لہٰذا ایسے دشمن کے خلاف مسلح جدوجہد ایک آفاقی حقیقت اور سچائی بن چکا ہے۔ اس دشمن کے خلاف ہمیں مسلح جدوجہد کیلئے بین الاقوامی قوانین اور قوموں کی اقدار اجازت دیتے ہیں کیونکہ پاکستان تاریخی ارتقاء کا پیداوار نہیں بلکہ اس وقت کے مغربی طاقتوں کی ضرورت تھی۔ انہیں ریاست سے زیادہ ایک چوکیدار اور کرایہ دار فوج چاہیئے تھا۔ انہوں نے یہ ریاست ہی فوج کے لئے بنایا تھا اور سترسالوں سے اس فوج کی پشت پناہی کررہے ہیں اوراس سے چوکیداری کا کام لے رہے ہیں۔ ایسے غیرفطری اور عسکری ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد ہر مظلوم کا بنیادی حق ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلو چ نے کہا ہم جمہوری جدوجہد کی اہمیت سے بھی واقف ہیں لیکن پاکستان کے زندانوں میں قید ہزاروں نوجوانوں کو مسلح محاذ سے نہیں بلکہ سیاسی سرکلوں، چوک، چوراہوں اور گھروں میں گھس پاکستانی فوج نے اٹھاکر زندانوں میں پھینک دیا ہے۔ وہاں ان پر غیر انسانی تشدد کیا جاتا ہے اور تشدد ہی سے انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ ایسے مقتول بلوچ و سندھی نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ہر روزملتی ہیں۔ پاکستان کی یہ جنگی جرائم اور درندگیاں ہماری مسلح جدوجہد پر ہماری ایمان کو مزید پختہ کرتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھی نوجوانوں کو سائین جی ایم سید کی تعلیمات اور عالمی قوانین کے تحت اس جانب مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔